افغان طالبان مذاکراتی ٹیم کے سربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی نے اپنی حالیہ انٹرویو کے دوران افغانستان میں بھارت کے مکروہ عزائم کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ چالیس برس سے لیکر آج تک بھارت نے ہمیشہ افغانستان میں منفی اور تخریبی کردار ادا کیا ہے۔ عباس ستانکزئی نے بتایا کہ 1979 میں جب سابق سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا اور کابل پر قبضہ کرنے کے بعد ناجائز کٹھ پُتلی حکومت قائم کی تو بھارت نے اس حکومت کو تسلیم کرکے مجاہدین اور جہاد افغانستان کے خلاف روس کی مدد کی، اسی طرح جب نائن الیون کے آڑ میں امریکہ ا ور اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کے قانونی طور پر جائز حکومت کو گرایا تو اس مرتبہ بھی بھارت نے طالبان مجاہدین کے خلاف امریکی جنگ میں بھرپور مدد کی۔ عباس ستانکزئی نے بتایا کہ فروری کے مہینے میں قطر کے دارالحکومت میں امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ امن معاہدہ کے بعد اب جب کابل حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہورہے ہیں تو بھارت ان مذاکرات کو ناکام کرنے کے لیے سازشیں کررہا ہے۔ جس کا ثبوت افغانستان میں داعش کے حالیہ حملوں کے بعد بھارتی حکومت و میڈیا کا طالبان کے خلاف پروپیگنڈا کرنا ہے حالانکہ طالبان نے نہ صرف ان حملوں سے لاتعلقی کا اعلان کیا بلکہ اس کی مذمت بھی کی۔عباس ستانکزئی کا کہنا تھا کہ بھارت نے ہمیشہ سے افغان عوام کے مقابلے میں غداروں اور قومی مجرموں کی پشت پناہی کی ہے اور وہی بڑے قومی مجرم آج کابل حکومت میں بڑے عہدوں پر براجمان ہیں، عباس ستانکزئی کا کہنا تھا اگر بھارت اپنی روایتی منفی پالیسی ترک کرکے افغانستان کے امن و صلح اور تعمیر وترقی میں کردار ادا کرنے کے لیے آگے آئے تو طالبان خیرمقدم کریں گے لیکن بھارت کو کبھی بھی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرے۔ افغان طالبان رہنما کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیلزاد نے بھارت کو مشورہ دیا تھا کہ طالبان کے ساتھ غلط فہمی دور کرنے کے لیے آمنے سامنے بات چیت کرے۔ افغان مفاہمتی عمل اور بھارت کے کردار کے بارے میں پاکستان اور افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندہ زلمے خلیل زاد نے گزشتہ روز اپنے دورہ بھارت کے دوران ایک جریدے کو انٹرویو میں کہاتھا کہ بھارت کو افغانستان کے امن مذاکرات اور مفاہمتی عمل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ زلمے خلیل زاد نے بھارتی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ دہشتگردی کے حوالے سے اگر بھارت کو طالبان کے بارے میں خدشات ہیں تو کیوں نا بھارتی حکام طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کریں اور غلط فہمیاں دور کریں۔ زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھارتی حکام کے ساتھ اس مسئلے پر تبادلہ خیال کیا ہے کہ بھارت کس طرح افغان مفاہمتی عمل میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ بھارت افغانستان کے اندر ایک اہم قوت ہے اور یہ بہتر ہوگا کہ بھارت اور طالبان کے درمیان رابط استوار ہو۔ زلمے خلیل زاد نے بتایا کہ بھارت نے افغانستان کی تعمیر و ترقی میں بہت سرمایہ کاری کی ہے لیکن حیران کن طور پر بھارت نے افغانستان کے مفاہمتی عمل کیلئے کئے جانے والے عالمی کوششوں میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے۔ زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ بھارت اور ہندوستان کے درمیان تاریخی تعلقات ہیں اور انہیں یقین ہے کہ بھارت اور طالبان کے درمیان ڈائیلاگ سود مند ثابت ہوگا اور اگر بھارت کو طالبان کے حوالے سے دہشتگردی کے مسئلے پر کوئی خدشات ہیں تو وہ رابطے یا ملاقات میں زیر بحث لائے جاسکتے ہیں۔ یہ پہلی بار ہے کہ امر یکہ نے بھارت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کی تجویز دی ہے۔ زلمے خلیل زاد رواں سال فروری میں ہونے والے دوحہ امن معاہدہ کے معمار ہیں اور افغانستان کے اندر مفاہمتی عمل کیلئے ان کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن زلمے خلیل زاد بھارت کے مکروہ چہرے سے ناواقف ہیں اور بھارت کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں سیاسی استحکام آئے اور طالبان کو سیاسی قدرت میں حصہ ملے۔ بھارت شروع دن ہی سے طالبان مخالف قوتوں کو سپورٹ کرتا آیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ افغان طالبان کی پاکستان کے ساتھ قربت ہے۔ بھارت کو خدشہ ہے اگر طالبان حکومت کا حصہ بن گئے تو پھر بھارت افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں داعش کے حالیہ حملوں کے بعد بھارتی میڈیا نے طالبان کے خلاف شدید پروپیگنڈا کیا اور پس پردہ بھارتی حکومت نے کابل حکومت کے ساتھ پیغامات کا تبادلہ جاری رکھا۔ رپورٹس کے مطابق داعش کے حملوں کے فوراً بعد ہی مودی سرکار اور اشرف غنی حکومت کے درمیان اس بات پر اتفاق ہوگیا تھا کہ داعش کے حملوں کو طالبان اور پاکستان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جائے۔ تاکہ طالبان کو سیاسی عمل کا حصہ بننے سے روکا جاسکے ۔ کابل میں سکھوں کے گردوارے پر حملہ ہو، دشت برچی میں نوزائیدہ بچوں کے ہسپتال پر حملہ ہو یا دیگر اس قسم کے واقعات اب امریکہ سمیت پوری دنیا جان چکی ہے کہ یہ حملے طالبان نے نہیں بلکہ داعش جیسے گروپوں نے کئے ہیں جن کو نئی دہلی کی حمایت حاصل ہے اور یہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت طالبان اور پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے کئے گئے اور آئندہ بھی مزید اس قسم کے واقعات کا احتمال موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان مذاکراتی ٹیم کے سربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی نے کہا ہے کہ افغانستان میں بھارت کا کردار ہمیشہ سے منفی رہا ہے۔ بھارت نے افغان عوام کے مقابلے میں غداروں اور قومی مجرموں کی پشت پہناہی کی ہے بھارت کو چاہئے کہ وہ سازشوں اور تخریب کاری پر مبنی پالیسی تبدیل کرکے خطے میں ذمہ دار ریاست کا کردار ادا کرے۔