وصال محمد خان
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس سینکڑوں سیاسی جماعتیں رجسٹرڈہیں۔ان میں سے ہرجماعت کادعویٰ اورنعرہ ہے کہ وہ اس ملک میں جمہوریت کی واحد علمبردارہے،اسکی فروغ کیلئے کام کررہی ہے اور یہاں جمہوریت کوپھلتاپھولتادیکھناچاہتی ہے۔مگرمقام افسوس ہے کہ ان جماعتوں کامقصدجمہوریت نہیں بلکہ اس نام کے گردان سے اقتدارکاحصول ہے۔ دنیابھرمیں جہاں جہاں جمہوریت رائج ہے وہاں سیاسی جماعتیں بھی موجودہیں جوعوام کی فلاح وبہبودکے ساتھ ساتھ جمہوریت کی فروغ کیلئے بھی کمربستہ رہتی ہیں ہرسیاسی جماعت جوکسی بھی ملک میں جمہوریت کی دعویدار ہے اور جمہوریت کے ذریعے اقتدارکاحصول چاہتی ہے اسکے اندربھی جمہوریت ہونی چاہئے۔ جبکہ بد قسمتی سے ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کے اندرجمہوریت کاکوئی رواج نہیں ہرسیاسی جما عت یاتوموروثیت کی داعی بنی ہوئی ہے یاپھرکوئی ایک نام نہاد سیاسی راہ نمااوربزعم خودجمہوریت کاچیمپیئن نامزدگیاں کردیتاہے اور اسکے ”ہمنواومصاحبین“جمہوریت کاراگ چھیڑدیتے ہیں۔زیادہ دورنہ جائیں پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ جب تک باقاعدہ ایک جمہوری جماعت تھی اوراسکے عہدیداروں کاانتخاب کارکنوں کی رائے سے ہوتاتھاتب تک یہ جماعت ازحدمقبول تھی اورعوام اسکے نام پرووٹ نچھاورکرتے تھے جس کاثمربرصغیرکے مسلمانوں کوایک علیٰحدہ ریاست کی صورت میں ملا۔برصغیرکی سب سے بڑی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس جب تک عوامی خواہشات کے مطا بق پالیسیاں بناتی رہی،لوگوں کوجمہوری نظام میں شراکت داری کا احساس دلاتی رہی اوراسکے کارکن سمجھتے رہے کہ قیادت کے انتخاب میں انکی رائے اہمیت کی حامل ہے اور جماعت اپنی پالیسیاں عوامی امنگو ں کومدنظررکھ کر بناتی ہے تب تک پورے بھارت میں اس جماعت کوٹکر دینے والاکوئی نہیں تھامگرجب اس نے جمہوریت کالبادہ اتارکر آمریت اپنائی نامزدگیوں سے کام چلاناشروع کردیاتوردعمل میں عوام نے نریندرمودی جیسے خونیوں کواقتدارسونپااگر انڈین نیشنل کانگریس جمہوریت پرکاربندرہتی اورعوام کواقتدارمیں شراکت داری کااحساس دلاتی رہتی تویقیناًعوام انتہااپسندوں کے ہتھے نہ چڑھتے اوربھارت آج بھی جعلی ہی سہی ایک سیکولرریاست ہونے کادم بھرتارہتا۔ اسی طرح اگر وطن عزیز میں مسلم لیگ کوجمہوری اندازسے چلایاجاتاتوملک میں بھی جمہوریت فروغ پذیررہتی اورسیاسی جماعتیں بھی جمہوریت کے نام پر آمریت کے جال میں نہ پھنستیں۔پاکستان کی تمام سیاسی جما عتیں اگرچہ جمہوریت کاراگ توالاپتی رہتی ہیں مگراپنے اندرجمہوریت لاگوکر نے سے پہلوتہی کی جاتی ہے۔جس قسم کی جمہو ریت ان جماعتو ں میں رائج ہے حکومت ملنے پریہ ریاست کوبھی اسی اناڑی اور آمرانہ انداز سے چلانے کی کوشش کرتی ہیں جس کالازمی نتیجہ یہی نکلناتھاکہ پون صدی گزرنے کے باوجودملک کیلئے کسی واضح سمت کاتعین نہ ہوسکا جس طرح سیاسی جماعتیں اپنے اندر جعلی انتخابات یانامزدگیوں کے ذریعے کام چلاتی ہیں اسی طرح حکومت ملنے پرغیرمنتخب افرادکواہم ذمے داریاں سونپی جاتی ہیں اہم عہدے ٹیکنوکریٹس کودئے جاتے ہیں یعنی ملک کوٹھیکے پردیاجاتاہے۔ اگران جماعتوں کے اندرجمہوریت رائج ہوتی اورانہیں جمہوری اندازسے چلایاجاتاتوملک کوبھی اسی طریقے سے چلانے کی کوشش کی جاتی اگران جماعتوں کے اندرجمہوریت موجود ہوتی اورادنیٰ واعلیٰ عہدیداروں کاانتخاب کارکنوں کی رائے سے ہوتاتوایسے اہل افرادسامنے آتے جن کے ہوتے ہوئے ملک کوٹھیکے پر دینے کی ضرورت نہ پڑتی ماضی قریب میں دوچارافرادمختلف حکومتوں میں وزیرخزانہ کے طورپرخدمات انجام دیتے رہے ایک فرداگردو مختلف نظریات رکھنے والی جماعتوں کی حکومت میں وزیرخزانہ ہوگاتوجمہور یت اورنظریئے کی کیااہمیت رہ گئی؟۔حال ہی میں الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کودوبارہ انٹراپارٹی انتخابات منعقدکرنے کی ہدایت کی اور تنبیہہ کی گئی کہ اگربیس روزکے اندرانٹراپارٹی انتخابات کاانعقاد نہ کیاگیاتوآمدہ عام انتخابات میں انہیں مطلوبہ انتخابی نشان الاٹ نہیں کیاجائیگاتحریک انصاف نے گزشتہ انتخابات جس اندازسے منعقدکئے تھے اس سے بدتراندازمیں نئے انتخابات منعقدکئے گئے اور”اندھابا نٹے ریوڑیاں مڑمڑکراپنوں کودے“والے فارمولے پرعمل کیاگیانہ ہی ممبرسازی ہوئی،نہ ہی ویلیج یا یونین کونسلز سطح پرعہدیداروں کاانتخاب ہوا،اورنہ ہی کسی کارکن نے ووٹ ڈالا۔ عمران خان نے جوافرادنامزد کئے انہیں حسب سابق بلامقابلہ ”منتخب“ کیاگیاجس طریقے سے یہ انتخابات منعقدہوئے یہ جمہوریت کیساتھ مذاق اوراسکی منہ پرطمانچے کے مترادف ہے۔ جمہوریت کی علمبردارجماعتوں کے اندراگراسی طرح کے انتخابات منعقدہونگے تواس ملک میں جمہوریت کیاپنپ سکے گی اورجمہو ری روئیے کیافروغ پائیں گے؟سیاسی جماعتوں کو لمیٹڈ کمپنیوں میں تبدیل کیاگیاہے 26سالہ جدوجہدکے دعویدارقائدین 27 سال سے چیف ایگزیکٹیوزبنے بیٹھے ہیں وہ کسی کوبھی جی ایم نامزدکردیتے ہیں اور بورڈآف گورنرزاسکی توثیق کردیتاہے۔جب تک ملک میں اسی طرح کے جعلی انتخابات منعقدہونگے،جمہوریت کے نام پرعوام کااستحصال ہوگا، عام کارکن کواوپر آنے نہیں دیاجائے گاتب تک نہ ہی جمہوریت مستحکم ہوگی اورنہ ہی یہ ملک حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلانے کاحقدارہوگا۔ الیکشن کمیشن نے جب یہ قدم اٹھایا ہی ہے تواسے دیگر سیاسی جماعتوں کوبھی انٹراپارٹی انتخابات کاپابندبناکراس عمل کی مانیٹرنگ کرنی چاہئے محض احکامات اورہدایات سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوگا جب رولزموجودہیں قانون موجودہے اوراس پرعملدرآمدکی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے تواسے یہ قوانین لاگوکرنے میں کونساامرمانع ہے؟۔انٹراپارٹی انتخابات کے حوالے سے قوانین پرسختی سے عملدرآمدکرواناہوگا۔الیکشن کمیشن اس ضمن میں سنجیدہ اقدامات اٹھائے تاکہ وطن عزیزمیں جمہور یت کوفروغ ملے اورحقیقی سیاسی قیادت سامنے آئے۔ ملک کوہائبرڈسیاسی راہنماؤں نے نہیں حقیقی سیاسی قیادت نے ترقی کی شاہراہ پرگامزن کرناہے ایسی قیادت جن کی جڑیں عوام میں ہوں، وہ عوام میں سے ہواور جوعوام کو جوا ب دہ ہو۔ یہ جواب دہی منصفا نہ،غیرجانبدارانہ عام انتخابات اورصاف وشفاف انٹراپارٹی انتخابات کے ذریعے ممکن ہے۔