جب سے دنیاکی ناجائزریاست اسرائیل وجودمیں آئی ہے تب سے خلیج کے خطے سمیت پوری دنیاکاامن داؤپرلگ چکاہے۔ اسرائیل موجودہ دنیاخصوصاًامت مسلمہ کیلئے ایک ناسورکی حیثیت رکھتاہے۔ اس نے فلسطین پرقبضہ کرکے وہاں کے باسیوں کوبے دخل کیااورنہتے معصوم و مظلوم فلسطینیوں کوآگ وخون میں نہلادیا۔
اسکی حالیہ کارروائیوں سے لگ رہا ہے جیسے دنیا کے چندغنڈوں موالیوں نے زورزبردستی سے فلسطین پرقبضہ جمالیاہے اوراب وہ اردگردکے تمام ممالک کیساتھ پنگہ بازی میں مصروف ہوچکے ہیں۔ اس نے گزشتہ ایک سال سے غزہ میں آگ وخون کاایسابازارگرم کررکھاہے جس کی مثال متمدن دنیاکی تاریخ میں ملنامشکل ہے۔ معصوم، پرامن اورنہتے شہریوں پراسرائیل کے مظالم نے ہلاکوخان اورچنگیزکی یادتاز ہ کردی بلکہ اسرائیلی مظالم کے سامنے اُن خونخواردرندوں کی درندگی بھی ماندپڑگئی۔
اس ناجائز ریاست نے دنیاکے تمام قوانین، اصول وضوابط اوراخلاقیات کوپاؤں تلے رونددیا، اس نے رہائشی علاقوں پرکارپٹ بمباری کی، سکولوں کوبموں کانشانہ بنایا، پناہ گزیں کیمپوں کوآگ وخون میں نہلادیا اوربربریت کی انتہاکرتے ہوئے ہسپتالوں پربھی بمباری کی حالانکہ ایمبولینس اورہسپتال کوکسی بھی جنگ میں نشانہ نہیں بنایاجاتا۔ اوراس تمام کارروائی کیلئے اس نے حماس کابہانہ بنایاہواہے۔ ایک حماس نامی تنظیم کی خاطراس نے غزہ کوتباہ وبربادکردیااوروہاں کے باسیوں کودربدرکی ٹھوکریں کھانے پرمجبورکردیا۔
اس نے حزب اللہ کی سرکوبی کے نام پر لبنان کوتختہء مشق بنارکھاہے، اردن، شام، عراق اوراب ایران پراسکے حملوں سے ثابت ہے کہ ان غنڈے موالیوں نے دنیاکوہرحال میں آگ وخون کی نذرکردیناہے۔ اس ناجائزصیہونی ریاست کی پشت پریقینادنیامیں امن کے خودساختہ ٹھیکیداروں کاہاتھ ہے۔ امریکہ، برطانیہ اوراسکے اتحادی اگراسرائیل کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں توحزب اللہ یاحماس جیسی کوئی تنظیم اسرائیل کیلئے زہرقاتل ثابت ہوسکتی ہے، مگردنیامیں امن کاڈھنڈوراپیٹنے والے اورانسانی حقوق کے خودساختہ علمبرداروں نے غزہ میں انسانیت سوزمظالم پرچپ سادھ لے رکھی ہے بلکہ یہ اسرائیل کوہلہ شیری دیتے رہتے ہیں اوراس کے ناجائزمؤقف کی حمایت کرتے نظرآرہے ہیں۔
نہ ہی اقوام متحدہ میں کوئی قرارداد پاس ہونے دے رہے ہیں، نہ ہی اسکے خلاف کوئی کارروائی ہونے دیتے ہیں اورنہ ہی اپنے اس ناجائزاولادکومعصوم بچوں کے قتل عام سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلکہ اسے روکناتودرکنارالٹااسکی امدادجاری رکھے ہوئے ہیں اوراسکے لغو،فضول اوربے بنیادمؤقف کومبنی برحق سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اسرائیل کے مؤقف میں کوئی وزن نہیں بلکہ ساری دنیاجانتی ہے کہ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے جس نے فلسطین پرقبضہ جمارکھاہے۔ دنیاکے نقشے پرموجودیہ ناجائزاورغاصب ملک اردن، لبنان اورفلسطین کی زمینیں قبضہ کرکے وجودمیں لایاگیا ہے۔
جس کیلئے جوجوازگھڑے جارہے ہیں اگرانہیں درست مان لیاجائے توخودامریکہ اوربرطانیہ کے وجودبھی ناجائزہیں۔ ان دونوں دنیاکے خود ساختہ ٹھیکیداروں نے خلیج کے خطے پراپناتسلط قائم رکھنے کیلئے اس ناجائزریاست کوجائزتسلیم کرلیاہے۔ انکے اپنے بنائے گئے ادارے (اقوام متحدہ جوکہ درحقیقت انکی لونڈی بن چکی ہے) نے بھی ان گنت قراردادیں منظورکی ہیں جس میں دوریاستی حل پرزوردیاگیاہے بلکہ امریکہ تو تحریک آزادی فلسطین کے مرحوم راہنمایاسرعرفات کیساتھ دوریاستی حل کاوعدہ کرچکاہے۔
اسی وعدے کے سبب یاسرعرفات نے اپناپستول امریکی صدرکوپیش کرکے دنیاکوامن پیغام دیاتھا، مگرامریکہ، برطانیہ اوراسرائیل نے اپنی کارروائیوں سے ثابت کیاکہ دنیاکے یہ خودساختہ تھانیدار کسی وعدے کاپاس رکھناضروری نہیں سمجھتے اورجب یہ وعدہ کسی کمزورکیساتھ ہوتو یہ اسے جوتے کی نوک پہ رکھتے ہیں۔
حال ہی میں اسرائیل نے اپنی شرانگیزیوں کادائرہ وسیع کرتے ہوئے لبنان اورایران پرحملے کئے ہیں۔ ایران پرکئے جانے والے حملوں سے اگرچہ اس کابڑانقصان نہیں ہوامگرکسی آزادوخودمختارملک پراس طرح دھڑلے سے حملہ آورہونے کامطلب جس کی لاٹھی اسکی بھینس کے سوا کیا ہوسکتا ہے؟ حماس کے راہنماکوایرانی سرزمین پرحملے کانشانہ بنایاگیا۔ ایرانی مرحوم صدرکی حادثاتی موت پربھی شکوک وشبہات کے سائے منڈلا رہے ہیں اورکہاجارہاہے کہ یاتوایرانی صدرکے ہیلی کاپٹرکونشانہ بنایاگیایاپھراس میں پیداہونے والی فنی خرابی ازخودپیدانہیں ہوئی بلکہ اسے پیداکیاگیا۔
حال ہی میں اسرائیل نے ایران پرمیزائلوں کابڑاحملہ کیاہے جس میں اگرچہ جانی نقصان توزیادہ نہیں ہوامگرکسی آزاد اور خود مختارملک پراس قسم کاحملہ دنیاکے تمام قوانین کی سنگین خلاف ورزی تصورہوتی ہے۔ مگرقابل افسوس امریہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ اسکی مذمت کی بجائے اسرائیلی مؤقف کے حامی نظرآرہے ہیں۔ ان کے اس کردارسے نہ صرف خطے بلکہ دنیاکاامن داؤپرلگ چکاہے، دنیا بارود کے ڈھیرمیں تبدیل ہو چکی ہے اوریہ بارود کسی بھی وقت دھماکے سے پھٹ سکتاہے۔
اسرائیل اورایران کے درمیان باقاعدہ جنگ چھڑنے کے خدشات بڑھ چکے ہیں جس میں نہ صرف دونوں جانب قیمتی جانوں کاضیاع ہوگابلکہ دنیاکی معیشت بیٹھ جانے کااندیشہ بھی نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔ دنیاکے کسی خطے میں جنگ امریکہ کیلئے سودمندثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اگردنیامیں امن وامان ہوتواسکی سینکڑوں اسلحہ ساز فیکٹریاں بندہوجائینگی جس سے اسکی معیشت کاڈوب جانایقینی ہے۔
دنیامیں کہیں بھی جنگ وجدل امریکی مفادمیں ہے بلکہ وہ دنیامیں جنگ وجدل کوہوادیتاہے۔ خلیج میں جنگ کے شعلوں کوپھونکیں مارناامریکہ کیلئے بھی تباہی کاباعث بن سکتاہے۔ اسکے سابقہ کردارکے پیش نظرمسلمان پہلے ہی امریکہ کواپنادشمن سمجھتے ہیں۔ اسرائیل کی حالیہ کارروائیوں کے بعدامریکہ اورمغربی دنیاکے خلاف مسلمانوں میں نفرت کالاواپک رہاہے۔ اسرائیل تومسلمانوں کادشمن نمبرایک تھاہی، امریکہ اوربرطانیہ بھی اس فہرست میں جگہ بناچکے ہیں۔
اگرامریکہ اوراسکے اتحادی آج اسرائیل کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیں تواسرائیل کوحماس یاحزب اللہ ہی نیست ونابودکرنے کیلئے کافی ہیں۔ امریکہ برطانیہ اور اسکے دیگر اتحادی نفرت بڑھانے سے گریزکریں۔ اسرائیل دنیاکوتباہ کرنے کے درپے ہوچکاہے، اسے دوریاستی حل پرآمادہ کریں اور دنیا کو راکھ کے ڈھیرمیں تبدیل کرنے والے اقدامات سے بازآجائیں۔
وصال محمد خان