دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کی کامیاب اور تاریخی جنگ کے بعد جب امن وامان بحال ہوا تو قبائلی عوام کی خواہش پر حکومت میں فاٹا انضمام کا فیصلہ کیا۔ انضمام سے پہلے سابقہ فاٹا میں انگریز دور کا قانون ایف سی آر یعنی فرنٹیئر کرائم ریگولیشن نافذ تھا جس سے قبائلی عوام بلیک لا اور ظلم و جبر کا قانون کہتے تھے۔ سرتاج عزیز کمیٹی رپورٹ سفارشات کی روشنی میں حکومت نے نیک نیتی سے فاٹا انضمام کے عمل کو بہت تیزی کے ساتھ مکمل کیا۔ تمام سیاسی جماعتوں نے آئینی اور قانونی ترامیم کرنے میں حکومت کا ساتھ دیا اور اس تاریخی انضمام کو حقیقت کا روپ دیا ۔حکومت نے قبائلی اضلاع کی تعمیروترقی کیلئے 10 سالہ پلان منظور کیا جس کے تحت قومی خزانے سے ہرسال قبائلی اضلاع پر 100 ارب روپے خرچ کیے جائینگے۔ جب 2018 کے جنرل الیکشن کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کی صوبہ خیبر پختونخوا اور مرکز دونوں میں حکومت بنی تو وزیراعظم عمران خان نے فاٹا انضمام میں خصوصی دلچسپی لی، عدلیہ، پولیس اور دوسرے تمام محکمہ جات کی توسیع قبائلی اضلاع تک کردی گئی، لیکن یہ سب کچھ بہت عجلت میں اور بغیر منصوبہ بندی کے ہوا ،جس کی وجہ سے مشکلات و مسائل پیدا ہوئے ۔ دوسرے ڈیپارٹمنٹس کی طرح عدلیہ کی بھی قبائلی اضلاع میں توسیع کی گئی ، جودیشل کمپلیکس کے لئے عارضی طور پر عمارتیں مہیا کی گئی، اور جوڈیشل افسران اور دیگر عملہ کو تعینات کیا گیا لیکن ان کی رہائش اور دوسرے سہولیات کا مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے۔
دوسری جانب اکثر قبائلی اضلاع کے لئے عدالتیں آج نیشنل کمپلیکس بہت دور دور ضلعوں یا شہروں میں بنائی گئی جس کی وجہ سے سائلین کو دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مثال کے طور پر ضلع خیبر کے لئے عدالت حیات آباد میں بنائی گئی ہے، ضلع باجوڑ کے لیے عدالت تیمرگرہ ،جنوبی وزیرستان کے لیے عدالت ٹانگ میں، ضلع اورکزئی کے لئے عدالتی ہنگو، شمالی وزیرستان کے لیے عدالتیں بنوں میں بنائی گئی ہیں وانا اور مکین تحصیل سے سائلین کو اپنے مقدمات کے سلسلے میں ٹانک آنا پڑتا ہے۔ اس طرح سائلین یا درخواست گزاروں کو رات گزارنی پڑتی ہے اور اگلے دن تاریخ بدل دی جاتی ہے تو ان کو بہت دور واپس جانا پڑتا ہے اور یہ آنا جانا لگا رہتا ہے ۔
اگرچہ یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ قبائلی اضلاع کے لوگ عدالتوں میں نہیں آ رہے اور وہ عدالتی نظام کے مخالف ہیں۔ پولیس تھانوں میں کم تعداد میں لیکن ایف آئی آرز درج ضرور ہورہی ہیں اور عدالت فیصلے بھی کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر باجوڑ سے قتل کے ایک مقدمے میں قاتل کو سزائے موت دی گئی لیکن چونکہ قبائلی اضلاع کے عوام میں عدالتی نظام سے نابلد ہیں ۔ انہیں اپنے کیس مقدمے کے لیے وکیل کرنا پڑتا ہے، پھر وکیل عدالت میں دلائل دیتا ہے، اور کیس کی تاریخوں یا مہینوں تک چلتا ہے اور سائلین کو محسوس ہوتا ہے کہ انہیں فوری انصاف نہیں مل رہا جس کی وجہ سے ان کی بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے پہلے قبائلی عوام آزاد جرگہ سسٹم اور پولیٹیکل عدالت میں مقدمات لے جاتے جس کا فیصلہ دنوں میں ہو جاتا تھا ۔
تھانہ پولیس سٹیشن جو کہ کسی بھی جرم یا مسئلہ کی صورت میں سائلین کے لیے پہلی جگہ ہوتی ہے تاکہ اس بابت رپورٹ درج کرائی جا سکے، لیکن چونکہ حکومتی اعلان کہ تحت بیشتر تھانوں میں ڈی ایس پی ایس ایچ اوز سب انسپکٹرز اور اسسٹنٹ سب انسپکٹرز خاصہ دار اور لیویز کو شولڈرز پروموشن دے کر بنائے گئے ہیں۔ جن کی اکثریت کم تعلیم یافتہ اور ان پڑھ ہیں ، اس لئے قانون سمجھنے اور اس کے تحت کاروائی کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں ، اسی طرح کسی جرم یا تنازعے کی صورت میں تفتیشی آفیسر پشاور یا دوسرے بڑے شہروں سے متعلقہ قبائلی اضلاع جاتے ہیں ۔جس کی وجہ سے تفتیش اور مقدمے پر وقت زیادہ لگتا ہے اور یہ تاثر ابھر رہا ہے جیسے کہ تھانہ کچہری نظام ناکام ہے۔
اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ کا کردار بھی منفی ہے جوکہ تنازعہ یا مسلح کے فریقین کو ڈراتے ہیں کہ ایف آئی آر درج نہ کریں اور جرگہ کے سامنے بیٹھ کر اپنا مسئلہ حل کرائیں اور اگر عدالت جائیں گے تو مہینوں اور سالوں میں آپکا مقدمہ لٹکا رہے گا اور انصاف حاصل کرتے کرتے بہت پیسے خرچ ہوں گے۔ لہٰذا اب بھی ایک بہت بڑی تعداد میں قبائلی عوام آزاد جرگہ سسٹم کے ذریعے اپنے مقدمات حل کروانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت کے لیول پر بھی چند مشکلات ہیں جس کی وجہ سے قبائلی اضلاع میں جاری ترقی کے عمل پر اثر پڑ رہا ہے، اور وزیراعلی خیبرپختونخوا اس بارے میں باقاعدہ اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کر چکے ہیں ،کہ مرکزی حکومت کی جانب سے فنڈز فراہمی کا عمل سست روی کا شکار ہے۔ صوبائی حکومت نے قبائلی اضلاع میں مستقل عدالتی کمپلیکس اور پولیس تھانوں کے لئے فنڈز کی منظوری دی ہے اور امید کی جارہی ہے کہ مرکزی حکومت بروقت فنڈز کا اجراء کر کے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنائے گی تاکہ قبائلی عوام کو انضمام کے فوائد اور سہولیات بغیر کسی مزید تاخیر کے پہنچائی جا سکیں ۔
یہ تاثر درست ہیں کہ قبائلی اضلاع کے عوام عام قوانین اور عدالتوں سے نابلد ہیں تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عوام کی اکثریت انضمام بحالی انتظامات اور اصلاحات کا نہ صرف خیرمقدم کر رہی ہے بلکہ حکومتی اداروں کے ساتھ تعاون بھی کر رہی ہے۔ حکومت کی یہ پالیسی خوش آئند ہیں کہ اہم فیصلے سے قبل قبائلی نمائندگان اور مشران کو اعتماد میں لے رہے ہیں، جبکہ ہزاروں کی تعداد میں قبائلی نوجوان کو ملازمتیں بھی دے رہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اب تک چار ہزار نئی ملازمت دی گئی ہیں، اور مزید آٹھ ہزار دی جائیگی۔ چلنجز خلاف ِتوقع نہیں ہے تاہم ہونے والی پیش رفت اور جاری اقدامات کے بہتر اور مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں اور امن کی بحالی کے بعد حکومت کی تمام تر توجہ تعمیر نو اور ترقی کے اقدامات پر مرکوز ہیں۔