وصال محمد خان
خیبرپختونخوا میں گرمی کی شدید لہر جاری ہے۔ میدانی علاقوں کا درجہ حرارت دن کے وقت 45 دگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے جس سے انسان، حیوان اور چرند، پرند سب پریشان ہیں۔ ایسے میں بجلی کی ناروا لوڈشیڈنگ نے شہریوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے جس سے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق چھوٹے بڑے شہروں اور دیہات و قصبات میں احتجاجاً سڑکیں اور شاہراہیں بند کرنا معمول بن چکا ہے۔
احتجاجاً کوئی شاہراہ بند ہونے پر صوبائی انتظامیہ کو سامنے آنا پڑتا ہے جو بجلی کی صورتحال میں بہتری کا لولی پاپ دے کر سڑک تو کھلوا دیتی ہے۔ مگر ان کی یقین دہانیوں پر عملدر آمد نہیں ہوتا۔ اس بار چونکہ صوبے اور وفاق میں الگ الگ پارٹیوں کی حکومتیں قائم ہیں اور واپڈا وفاقی محکمہ ہے۔ وفاق اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں جس کے بد اثرات براہ راست عوام پر پڑ رہے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کی یقین دہانیوں پر پیسکو انتظامیہ قطعاً عمل نہیں کرتی اس طرح خلقِ خدا چکی کی دو پاٹوں کے درمیان پس رہی ہے۔
عیدالاضحیٰ کے موقع پر وزیر اعلیٰ، علی امین گنڈاپور نے ڈی آئی خان جبکہ کچھ ایم این ایز اور ایم پی ایز نے مختلف اضلاع میں گرڈ سٹیشن جا کر بجلی بحال کروائی۔ وزیر اعلیٰ نے اپنے ارکان اسمبلی کو ہدایت کی کہ وہ گرڈ سٹیشنز جا کر بجلی بحال کروالیا کریں مگر اس سے بھی صورتحال میں بہتری نظر نہیں آ رہی۔ اب عوام صوبائی حکومت سے تو مایوس ہیں ہی، مگر وفاقی حکومت کے خلاف بھی نفرت کا لاوا پک رہا ہے۔
وفاقی حکومت پر کیا موقوف، اب تو عوام وزیر اعلیٰ کی گنڈاسہ سٹائل اور ڈائیلاگ مارنے کی عادت سے بھی چڑنے لگے ہیں۔ اوپر سے نئے بجٹ کے بعد مہنگائی کا ایک طوفان بھی برپا ہو چکا ہے۔ گزشتہ برسوں کے انہی دنوں میں خیبرپختونخوا کی اپنی سبزیاں بازار میں پہنچ جاتی تھیں جس سے ٹماٹر، پیاز، بھنڈی اور دیگر سبزیوں کی قیمتوں میں خاطرخواہ کمی واقع ہو جاتی اور یہ اشیا بیس پچیس روپے کلو دستیاب ہوتیں مگر اس مرتبہ ٹماٹر کی قیمت سو روپے کلو سے کم نہیں ہو رہی۔
منڈی بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ نقل و حمل اور کاشت کے اخراجات بے تحاشہ بڑھ چکے ہیں جس کے سبب قیمتوں میں کمی نہیں ہو رہی۔ حیرت انگیز طور پر گزشتہ ہفتے آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت میں پانچ سو روپے کا ہوشربا اضافہ ہوا، یہ قیمت سولہ سو روپے سے بڑھ کر 21 سو روپے ہو چکی ہے۔ رواں ہفتے صوبے کے بڑے مسائل میں نمبرون گرمی کی شدت، نمبر دو بجلی کی نایابی اور نمبر تین مہنگائی رہی۔
جہاں تک سیاست کا تعلق ہے تو مندرجہ بالا مسائل نے سیاست کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ کچھ سیاسی رہنما سکرین پر خودنمائی کے لیے ادھر ادھر کے ایشوز پر سیاست چمکانے میں مصروف ہیں مگر اپنے مسائل میں گلے تک دھنسے عوام کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ تحریک انصاف مرکزی سطح پر اختلافات کا شکار ہو چکی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہری پور سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی عمر ایوب جنرل سیکرٹری شپ سے مستعفی ہو چکے ہیں۔ شیرافضل مروت اور شاندانہ گلزار کے اپنے بکھیڑے ہیں جس سے پارٹی کے اندرونی اختلافات موضوع بحث بن چکے ہیں۔
علی امین گنڈاپور کے کبھی دھوپ کبھی چھاؤں والا معاملہ برقرار ہے۔ وہ ایک دن وفاق کے ساتھ تمام معاملات افہام و تفہیم سے حل ہونے کی خوشخبری سناتے ہیں تو دوسرے دن وفاق کے خلاف بیان داغ دیتے ہیں۔ بیرسٹر سیف آئے روز وفاق پر تبراء بھیجتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے تازہ ارشاد میں مولانا فضل الرحمان سے وفاقی حکومت کے خلاف تحریک شروع کرنے کی اپیل کی ہے جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ وہ وفاق سے اپنی عداوت میں مولانا کا استعمال کرنے کے خواہشمند ہیں۔ مولانا ان کے دام میں آتے ہیں یا وکٹوں کی دونوں جانب کھیلتے ہیں یہ آنے والے چند ہفتوں میں واضح ہو جائے گا۔
فی الحال مولانا نے ملک میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔ پانچ ماہ بعد ہی نئے انتخابات کے مطالبے سے مقتدر حلقوں کا اتفاق ممکن نظر نہیں آتا۔ کراچی سے درآمد شدہ مشیر خزانہ مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ مالی سال 2023-24 ء کے اختتام پر خیبر پختونخوا کا خزانہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اس سے یقیناً ان کی مراد یہی ہوگی کہ خزانہ بھرا ہوا ہے۔ صوبائی حکومت کی سنجیدگی اور اہلیت کا یہ عالم ہے کہ ایک دن تنخواہوں کے لیے رقم نہ ہونے کا رونا رویا جاتا ہے تو دوسرے دن خزانہ “نکوں نک” بھرا ہونے کے دعوے سامنے آتے ہیں۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ صوبائی محاصل کا 93 فیصد انحصار وفاق سے واجبات کی ادائیگی پر ہے۔ اگر وفاق واجبات ادا نہیں کر رہا تو خزانہ کس طرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہو سکتا ہے؟ اس سے یہی بات آشکارا ہوتی ہے کہ یا تو صوبائی حکومت اور اس کے کرتا دھرتا پہلے جھوٹ بولتے رہے یا اب یہی فعل سر انجام دے رہے ہیں۔ وفاق نے جس آپریشن عزم استحکام کا اعلان کیا ہے اس پر صوبے میں سیاست چمکانے کا آغاز حکمران جماعت نے کیا۔ وزیر اعلیٰ نے ایپیکس کمیٹی کے اجلاس میں عزم استحکام پر کوئی اعتراض نہ اٹھا کر حمایت کی مگر دوسرے دن کہا کہ ان کے سامنے کسی آپریشن کا ذکر نہیں ہوا اور نہ ہی انہوں نے ایسی کسی منظوری میں حصہ لیا ہے۔
اب ایک جانب مولانا فضل الرحمان عزم استحکام کی مخالفت میں پیش پیش ہیں تو دوسری جانب اے این پی اور دیگر جماعتیں بھی اس کے خلاف بیانات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شمالی اور جنوبی اضلاع سے طالبان کے متحرک ہونے کی اطلاعات بھی تسلسل سے آرہی ہیں۔ غیر مصدقہ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جنوبی اضلاع میں رات کے وقت طالبان ناکہ لگا کر مسافروں کو چیک کرتے ہیں۔ اگر ان خبروں میں صداقت ہے تو یہ صوبائی حکومت کی اہلیت اور ترجیحات پر سوالیہ نشان ہے۔ سیاسی جماعتوں کے طرز عمل سے عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے۔
رواں ہفتے بھی باجوڑ میں دہشت گردی کے ایک افسوسناک واقعے میں سابق سینیٹر ہدایت اللہ خان اور ان کے چار ساتھی جام شہادت نوش کر گئے۔ ہدایت اللہ خان 2012ء سے مارچ 2024ء تک ایوان بالا کے رکن رہے، وہ سابق گورنر انجینئر شوکت اللہ کے بھائی تھے۔ گزشتہ عام انتخابات کے لیے انتخابی مہم کے آغاز میں ہی جے یو آئی کے ایک اجتماع پر حملہ ہوا جس میں ستر کے قریب کارکن جاں بحق ہوئے۔ انتخابی مہم کے دوران آزاد امیدوار مبارک زیب کو قتل کردیا گیا، ان کے بھائی نے قومی اور صوبائی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ پی کے 22 کا ضمنی الیکشن 11 جولائی کو منعقد ہونا ہے جس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں نے امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ ہدایت اللہ خان کے بھتیجے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جن کی انتخابی مہم سے واپسی پر مذکورہ واقعہ پیش آیا۔
ایک جانب دہشت گردی کے پے در پے واقعات ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تو دوسری جانب سیاسی جماعتیں عزم استحکام کے خلاف میدان گرمائی ہوئی ہیں۔ بدقسمتی سے ان جماعتوں کے پاس آپریشن کا متبادل کوئی تجویز یا منصوبہ بھی موجود نہیں۔ دہشت گرد پر پرزے نکال رہے ہیں، ریاستی رٹ چیلنج ہو رہی ہے جبکہ یہ اپنی سیاست چمکانے کے لیے عزم استحکام کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔ یہ طرز عمل ملکی سلامتی و استحکام کے لیے نیک شگون نہیں۔