صوبے میں موسم سرما کا آغاز ہو رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے زیر اثر دن کے وقت موسم کا خاصا گرم رہتا ہے مگر صبح اور رات کے وقت درجہء حرارت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ نومبر کے پہلے یا دوسرے عشرے سے روایتی طور پر یہاں صبح کے وقت دھند کا سلسلہ بھی شروع ہونے کا امکان ہے۔ موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی ڈینگی کے کیسز میں بھی کمی آنا شروع ہوچکی ہے، گزشتہ ہفتے مثبت کیسز کی شرح خاصی کم رہی۔
سردی کے ان ابتدائی ایام میں وزیراعلیٰ، علی امین گنڈاپور نے ایک بار پھر عمران خان کی رہائی کیلئے مہم جوئی کا اعلان کیا ہے۔ اسلام آباد کے گزشتہ احتجاج اور بارہ اضلاع کا پرصعوبت سفر کاٹ کر پشاور پہنچنے کے بعد وزیراعلیٰ نے اپنی ذمہ داریوں پر بھی کچھ توجہ دی تھی کہ اسی اثنا میں بشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہوکر پشاور پہنچیں اور بعد ازاں پشاور ہائیکورٹ سے راہداری ضمانت حاصل کرلی۔ اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد ذرائع سے یہ خبریں سامنے آئیں کہ بشریٰ بی بی نے علی امین گنڈاپور کی تعریفیں کیں اور بانی کی رہائی کیلئے ان کی پرخلوص کوششوں کو سراہا۔
اس سراہنے کا اثر تھا کہ وزیراعلیٰ نے فوری طور پر پشاور میں 8 نومبر کو جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ کچھ ذرائع نے جلسے سے بشریٰ بی بی کے خطاب کا دعویٰ بھی کیا مگر اس کے بعد جلسے کی جگہ اور تاریخ بدل کر 9 نومبر کو صوابی کردیا گیا۔ شروع میں کہا گیا تھا کہ صوابی میں احتجاج کیلئے ٹینٹ ویلیج بنے گا جہاں سے مناسب وقت پر کارکنوں کو اسلام آباد مارچ کی کال دی جائیگی۔ وزیراعلیٰ نے حسب معمول بڑے بڑے دعوے کرکے طوفانی بیانات جاری کئے، انہوں نے کارکنوں کو سر پر کفن باندھ کر آنے اور پسماندگان کو غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے کی ہدایات بھی دیں۔ اس بار انہوں نے میدان جنگ میں اترنے کی ٹیون اپنائی ہے۔ پرامن احتجاج کی تکرار کے ساتھ وہ کفن اور جنازوں کا ذکر اور زندہ لوگوں کے غائبانہ نماز جنازہ کی باتیں بھی کر رہے ہیں۔ امید ہے ان سطور کی اشاعت تک یہ جلسہ منعقد ہوچکا ہوگا اور اس میں جو اعلان ہونا تھا وہ بھی سامنے آچکا ہوگا، متوقع طور پر اس جلسے میں نئے احتجاج یا آئندہ کے لائحہء عمل کا اعلان ہونا تھا۔
وزیراعلیٰ پر پی آئی اے کی خریداری کا دھن بھی سوار ہوچکا ہے۔ نجکاری کے سلسلے میں دس ارب کی بولی آنے پر پی ٹی آئی نے مؤقف اپنالیا ہے کہ پی آئی اے کو شہباز شریف فروخت کر رہا ہے اور مریم نواز خرید رہی ہے حالانکہ پنجاب حکومت کی جانب سے اس خریداری میں عدم دلچسپی ظاہر کی گئی ہے مگر وزیراعلیٰ کو ایک نیا مشغلہ ہاتھ لگاہے وہ آئے روز پی آئی اے کو خریدنے کے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘‘پی آئی اے کی خریداری کیلئے بولی میں کسی بھی حد تک جائیں گے، خریداری کے بعد نام تبدیل نہیں کریں گے، قومی اثاثہ اونے پونے داموں فروخت نہیں ہونے دیں گے، یہ خود ہی خریدار اور خود ہی فروخت کنندہ بننا چاہتے تھے مگر میں ایسا نہیں ہونے دوں گا، نیلامی میں جہاں تک جانا پڑا جائیں گے اور اسے سرکاری تحویل میں رکھ کر منافع بخش ادارہ بنائیں گے’’۔ پی آئی اے کی نجکاری ایک سنجیدہ معاملہ ہے جسے سیاسی بڑھک بازیوں کی نذر کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ علی امین گنڈاپور اگر پی آئی اے چلانے کی اہلیت سے بہرہ ور تھے تو اپنی حکومت میں یہی وزارت لیکر کمال دکھا سکتے تھے۔ پی آئی اے کو حالت نزع تک پہنچانے میں ان کے کولیگ چوہدری غلام سرور کا کردار ناقابل فراموش ہے جنہوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کی درفطنی چھوڑی جس سے پی آئی اے تباہ ہو کر رہ گئی اور کئی ممالک نے اس کی پروازوں پر پابندی عائد کردی۔
وزیراعلیٰ کیلئے بہترین طرز عمل تو یہی ہوگا کہ وہ احتجاجوں اور بے بنیاد بڑھک بازیوں کو خیرباد کہہ کر اپنی منصبی ذمہ داریوں کا احساس کریں۔ ان کی غیر تسلی بخش حکومتی کارکردگی سے عوام میں بدظنی اور مایوسی پھیل رہی ہے۔
ایک جانب وزیراعلیٰ وفاقی حکومت کے خلاف احتجاج میں مصروف ہیں جبکہ دوسری جانب پرائمری سکولوں کے اساتذہ صوبائی حکومت کے خلاف احتجاج پر ہیں۔ صوبے کے سرکاری پرائمری سکولوں کے اساتذہ نے اپ گریڈیشن نہ ہونے پر بچے واپس بھیج کر سکولوں کو تالے لگا دئے، سکولوں کی تالہ بندی کے بعد اعلان کیا گیا ہے کہ اپ گریڈیشن نہ ہونے تک سکول نہیں کھولے جائیں گے، اس سلسلے میں جناح پارک پشاور میں احتجاجی دھرنے کا اعلان کیا گیا تھا مگر انتظامیہ نے وہاں کے گیٹ بند کر دئے جس پر سڑک کنارے احتجاجی کیمپ لگا دیا گیا۔ اساتذہ راہنماؤں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت میں کابینہ نے 17 جنوری 2023ء کو اپنے آخری اجلاس میں متفقہ طور پر پرائمری اساتذہ کی اپ گریڈیشن کی منظوری دی تھی جسے موجودہ حکومت نے مسترد کیا ہے۔ اساتذہ کا مطالبہ ہے کہ پرائمری سکولوں میں کلاس کی سطح پر اساتذہ کی تعیناتی اور بچوں پر کتابوں کا بوجھ کم کیا جائے، ریگولرائزیشن ایکٹ 2022ء کے مطابق جی پی فنڈ دیا جائے، پی ٹی اے رولز 1989ء کے مطابق پروموشن میں فارگو آپشن بحال اور صوبے میں پرائمری سکولوں کی نجکاری کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ دوسری جانب حکومت نے سکولوں سے غیر حاضر اساتذہ کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کو یہ معاملہ تدبر سے حل کرنے کی ضرورت ہے، پی ٹی آئی ہی کی گزشتہ حکومت نے اساتذہ کو ون سٹپ اپ گریڈیشن دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب اس پر عملدرآمد کرا کے بچوں کا مستقبل تباہ ہونے سے بچایا جاسکتا ہے کیونکہ سکولوں کی بندش سے بچوں کی پڑھائی کا حرج ہو رہا ہے، سالانہ امتحانات کی تیاری کا یہی وقت ہوتا ہے، ایسے میں سکولوں کی تالہ بندی لمحہء فکریہ ہے۔ حکومت کو یہ قضیہ جلد نمٹانے کی ضرورت ہے۔
اے این پی کے مرکزی صدر ایمل ولی خان نے چارسدہ میں ایک شمولیتی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘‘صوبے کے وسائل تخت پنجاب اور اسلام آباد پر قبضے کیلئے استعمال ہو رہے ہیں، بارہ سال سے پختونوں کے حقوق کمپرومائزڈ ہوچکے ہیں، پختونوں کو مسخروں کے پیچھے لگا کر ان کے بچوں کے منہ سے نوالہ چھینا جارہا ہے، وزیراعلیٰ اسلام آباد اور پنجاب میں پختون بچوں کو پولیس کے ہاتھوں پٹوا رہے ہیں، 12 سالہ دور حکومت میں عوامی فلاح کا کوئی منصوبہ موجود نہیں، صوبائی خزانے سے پنجاب کے وکلاء کیلئے گرانٹس دینا شرمناک فعل ہے۔ 2013ء تک 80 ارب روپے کا قرض دار صوبہ 1800 ارب روپے کا مقروض ہوچکا ہے، زمین پر کوئی منصوبہ نظر نہیں آ رہا، نجانے یہ رقم کہاں جا رہی ہے؟’’
وصال محمد خان