وصال محمد خان
مالی سال 2025-26ء کیلئے خیبرپختونخوا کا بجٹ صوبائی اسمبلی میں پیش کردیا گیا ہے مگر اس کی منظوری وزیراعلیٰ، مشیر خزانہ اور چند دیگر راہنماؤں کی اڈیالہ جیل میں ملاقات سے مشروط کردی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ جب تک بانی سے ہماری ملاقات نہیں ہوجاتی بجٹ منظور نہیں کیا جائیگا۔ اس سے قبل عمران خان نے بجٹ پیش نہ کرنے کی ہدایت دی تھی حالانکہ بجٹ پیش اور منظور کرنا حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے اور بجٹ کے بغیر حکومت چلانا بھی ممکن نہیں۔ اسلئے بجٹ اسمبلی میں پیش تو کردیا گیا مگر اب اس کی منظوری پر بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے۔
بجٹ اجلاس کیلئے گورنر کو جو سمری بھیجی گئی اس کی منظوری میں ٹال مٹول سے کام لینے پر حکومت نے ریکوزیشن کا راستہ اپنایا۔ اجلاس کیلئے سمری گورنر ہاؤس کو موصول ہوئی تو گورنر موجود نہیں تھے، مگر ان کے آنے پر کہا گیا کہ گورنر کے پاس 14 دن کا وقت ہے، وہ سوچ سمجھ کر اجلاس بلائیں گے۔ اس سے قبل حکومت نے 13 جون کو بجٹ پیش کرنے کا اعلان کیا تھا۔ گورنر کی جانب سے عدم تعاون کے باعث 40 حکومتی ارکان کی ریکوزیشن پر اسپیکر کی جانب سے دو گھنٹے میں اجلاس بلا لیا گیا۔
وزیر خزانہ آفتاب عالم کی جانب سے اسمبلی میں پیش کردہ بجٹ کا کل حجم 2 ہزار 119 ارب روپے ہے جو صوبے کی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ ہے۔ بجٹ میں سالانہ ترقیاتی اخراجات کیلئے 547 ارب جبکہ غیر ترقیاتی اخراجات کیلئے 1 ہزار 415 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ صوبائی سالانہ ترقیاتی اخراجات کیلئے 195 ارب، ضلعی ترقیاتی اخراجات کیلئے 39 ارب، ضم اضلاع کیلئے 39.60 ارب، ضم اضلاع کے اے آئی پی کیلئے 92.740 ارب، بیرونی امداد سے چلنے والے منصوبوں کیلئے 177 ارب اور وفاقی حکومت کی امداد سے چلنے والے منصوبوں کیلئے 3.47 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
محکمہ صحت کا بجٹ 232 ارب سے بڑھا کر 276 ارب جبکہ تعلیم کیلئے رقم 327 سے بڑھا کر 363 ارب روپے کردی گئی ہے۔ تنخواہوں اور پنشن میں وفاقی حکومت کی طرز پر بالترتیب 10 اور 7 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ مزدور کی کم ازکم اجرت 40 ہزار روپے ماہوار مقرر کردی گئی ہے۔ پولیس میں سپاہی سے انسپکٹر تک عملے کی تنخواہیں پنجاب پولیس کے برابر کرنے اور شہداء پیکیج بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
صوبے میں شرح خواندگی بڑھانے کیلئے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے 5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ اسکول سے باہر بچوں میں سے 50 فیصد کو اسکول داخل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ پولیس کیلئے مختص بجٹ 124 ارب روپے سے بڑھا کر 128 ارب روپے کردیا گیا ہے، اسلحہ، گاڑیاں اور دیگر سازوسامان کی خریداری کیلئے 13 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ سیف سٹی پراجیکٹ پشاور کیلئے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کی تعمیر کا منصوبہ بھی بجٹ میں شامل ہے، جبکہ مواصلات کا بجٹ 72 ارب سے بڑھا کر 123 ارب روپے کردیا گیا ہے۔
ٹیکس میں چھوٹ اور نئی تجاویز
4.9 مرلہ تک رہائشی اور کمرشل جائیداد کو پراپرٹی ٹیکس اور الیکٹرک گاڑیوں کو 30 جون 2028ء تک ٹوکن ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے جبکہ رہائشی عمارت کے کمرشل استعمال پر 50 روپے فی مربع فٹ ٹیکس نافذ کردیا گیا ہے۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق پولیس میں سپاہی سے انسپکٹر تک عملے کی تنخواہوں کو پنجاب پولیس کے مساوی کردیا گیا ہے جبکہ تمام رینکس کے پولیس شہداء پیکیج میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اے ایس آئی اور انسپکٹرز کیلئے شہداء پیکیج 10 سے بڑھا کر 11 ملین روپے، ڈی ایس پیز اور ایس پیز کیلئے ڈیڑھ کروڑ سے 1 کروڑ ساٹھ لاکھ، ایس پی، ایس ایس پی اور ڈی آئی جی رینک کے شہداء کیلئے پیکیج دو کروڑ سے بڑھا کر دو کروڑ 10 لاکھ روپے کرنے کی تجویز ہے۔
آئندہ مالی سال کے دوران پولیس میں 1 ہزار 220 نئی بھرتیاں کی جائیں گی، نئی گاڑیاں خریدی جائیں گی جبکہ اسلحہ کی خریداری کیلئے 693.7 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ پولیس کے گریڈ 18 سے اوپر کے افسران کی تنخواہیں پنجاب اور بلوچستان پولیس کے برابر نہ کرنے پر افسران نے مایوسی کا اظہار کیا ہے اور بڑی تعداد میں افسران صوبے کو خیرباد کہنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق بلوچستان میں ڈی آئی جی کی تنخواہ آئی جی کے پی سے کئی گنا زیادہ ہے، جبکہ پنجاب اور بلوچستان میں ڈی آئی جی کی تنخواہ پختونخوا کے آئی جی سے 3 لاکھ روپے زیادہ ہے۔ خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی رسک زیادہ اور تنخواہیں و مراعات کم ہونے پر کئی بڑے افسران صوبہ چھوڑنے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ صوبائی حکومت کو پولیس کی جانب سے سپاہی سے لیکر آئی جی تک کی تنخواہیں پنجاب اور بلوچستان پولیس کے برابر کرنے کی تجویز دی گئی تھی، تاہم بیوروکریسی نے ایسا نہیں ہونے دیا، جس سے خودکش حملہ آوروں کو جپھی ڈالنے والی فورس مایوسی کا اظہار کر رہی ہے۔
ایک اعلیٰ پولیس افسر کے مطابق صوبے میں سینیئر افسران کے پاس گھر تک موجود نہیں، ہائی رسک اضلاع میں بلٹ پروف گاڑیاں میسر نہیں، افسران کے بچوں کو تعلیم کے وہ مواقع دستیاب نہیں جو دیگر صوبوں میں حاصل ہیں۔ دہشت گردی سے متاثرہ اضلاع میں ہائی رینک آفیسرز سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر دورے کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ بلٹ پروف گاڑیاں دستیاب نہیں اور جگہ جگہ آئی ای ڈیز نصب ہیں۔ مراعات کم، رسک زیادہ اور تنخواہ بھی دیگر صوبوں کے مقابلے میں خاصی کم ہونے کے سبب افسران یہاں سے جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پولیس افسران کے تحفظات دور کرنے پر ہمدردانہ غور کرے، اگر ہائی رینک افسران مایوس ہو کر صوبہ چھوڑیں گے تو امن و امان کی صورتحال پر قابو پانا مشکل تر ہو جائے گا۔
سیاسی بیانیہ: حکومتی دعوے، اپوزیشن تنقید
حسبِ سابق حکومتی ممبران بجٹ کو تاریخی قرار دے رہے ہیں جبکہ اپوزیشن ارکان نے الفاظ کا ہیرپھیر اور مایوس کن قرار دیا ہے۔ صوبائی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کے دوران اپوزیشن ارکان نے بجٹ کو غیر منطقی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت بانی پی ٹی آئی کی منظوری کے بغیر بجٹ پاس نہیں کریگی تو اسے اسمبلی میں پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
اگر حکومت نے سرپلس بجٹ پیش کیا ہے تو یونیورسٹیوں کے اثاثے فروخت کرنے کی کیا ضرورت پیش آ گئی تھی؟ بلدیاتی نمائندے چار سال سے سڑکوں پر اور عدالتوں میں خوار ہو رہے ہیں، انہیں بھی عوام نے منتخب کیا ہے، انہیں فنڈز کیوں فراہم نہیں کئے جا رہے؟ ایٹا کے پرچے حکومتی رکن کے حجرے سے برآمد ہو رہے ہیں، یہ کہاں کی شفافیت اور کونسا انصاف ہے؟ بجلی اور گیس کی پیداوار میں خودکفیل صوبہ ان سے محروم ہے، حکومت نے ان مسائل کے حل کیلئے کوئی اقدامات تجویز نہیں کئے۔
جبکہ دوسری جانب حکومتی ارکان نے کہا کہ نامساعد حالات میں ٹیکس فری اور 157 ارب سرپلس بجٹ صوبے کی تاریخ میں نئے باب کا اضافہ ہے، اس سے عوام کو ریلیف میسر آئیگا اور خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔
مشیر خزانہ مزمل اسلم نے کہا ہے کہ ‘‘بجٹ کی سرپلس رقم قرضوں کی ادائیگی اور مستقبل کیلئے استعمال میں لائی جاسکتی ہے، عوام کو بجلی کی مد میں ریلیف تب ممکن ہے جب صوبہ اپنی بجلی بنا کر تقسیم کرے۔ صوبائی سطح پر نیپرا بنایا جائیگا، جس کے بعد ہم بجلی کا اپنا ٹیرف مقرر کریں گے۔ مسلسل تیس گھنٹے تک بجٹ پر ارکان اسمبلی کا نکتہ نظر سننے کا موقع ملا، جسے انجوائے کیا اور بہت کچھ سیکھا۔ میں گزشتہ 22 برسوں سے وفاقی بجٹ کور کرتا آرہا ہوں، دنیا کے تمام بجٹس حقائق پر نہیں، تخمینوں پر بنتے ہیں’’۔
صوبائی حکومت بجٹ کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کر رہی ہے مگر دوسری جانب اسمبلی سے منظوری کو بانی کی رضامندی سے مشروط کردیا گیا ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ جس طرح بجٹ پیش کیا گیا ہے اسی طرح اسے منظور بھی کیا جائیگا، مگر بانی بانی کی رَٹ محض سیاسی بیان بازی کیلئے لگائی جا رہی ہے۔ مالی سال کیلئے بجٹ پیش یا منظور نہ کرنا حکومت سے دستبرداری کے مترادف ہوگا۔