وصال محمدخان
خیبرپختونخوامیں مون سون بارشوں کے آغازسے گرمی کازورٹوٹ چکاہے۔برسات سے قبل میدانی علاقے شدیدگرمی کی لپیٹ میں تھے جس سے معمولات زندگی بری طرح متاثرہورہے تھے۔بارشوں سے گرمی کازورتوٹوٹ چکاہے مگر موسلادھاربارشوں،ندی نالوں اور دریاؤ ں میں طغیانی سے نشیبی علاقے زیرآب آنے اورجانی ومالی نقصانات کاسلسلہ بھی جاری ہے۔دریائے سوات میں سیاحوں کے ڈوبنے کا جو اواقعہ پیش آیاتھااسکی انکوائری رپورٹ کے نتیجے میں صوبائی حکومت نے ڈائرکٹرجنرل ریسکیو1122اورڈائرکٹرجنرل اپرسوات ڈویلپمنٹ اتھار ٹی کوانکے عہدوں سے فارغ کردیاہے۔انسپکشن ٹیم نے سوات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی سست روی جبکہ ڈی جی ریسکیو 1122 کا تکنیکی تجربہ نہ ہونے کی رپورٹ صوبائی حکومت کوپیش کی جس پرحکومتی ایکشن کے نتیجے میں دونوں افسران کوعہدوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ واقعے پراس سے قبل بھی 6افسران کوانکے عہدوں سے ہٹایاجاچکاہے۔مذکورہ سانحے کے بعددریاکنارے قائم ناجائزتجاوزات ہٹانے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکاہے جس کے نتیجے میں سوات اورنوشہرہ میں مشہورومعروف ہوٹلوں کے اہم حصوں کومسمارکیاگیاہے۔
پشاورہائیکورٹ کے نئے چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ کی تقریب حلف برداری گورنرہاؤس پشاورمیں منعقدہوئی۔اس موقع پروزیراعلیٰ خیبرپختونخوا،وفاقی وزیرامیرمقام،اپوزیشن لیڈرڈاکٹرعباداللہ،پیپلزپارٹی کے صوبائی صدرمحمدعلی شاہ اوراعلیٰ سرکاری حکام بھی موجودتھے۔ گورنرفیصل کریم کنڈی اورعلی امین گنڈاپور کے مصافحے اورخوشگوارموڈمیں خیریت دریافت کرنے پرامیرمقام نے معنی خیزاندازمیں ماشاء اللہ کہاتومحفل کشت وزعفران بن گئی اورموقع پرموجود افرادنے قہقہہ لگایا۔ایکدوسرے کوبیانات کے ذریعے لتاڑنے والے ایک ساتھ بیٹھے اورخوشگوارماحول میں گفتگوکی۔اس ملاقات کی ویڈیوسوشل میڈیاپروائرل ہوئی۔جسے پی ٹی آئی کارکنان نے ناپسندیدگی کی نظرسے دیکھا اور وزیراعلیٰ کوشدیدتنقیدکانشانہ بنایاگیا۔بعض حلقوں نے اس ملاقات کومائنس عمران خان سے جوڑنے کی بھی کوشش کی۔ اپوزیشن کے دیگر قائدین نے بھی اس خوشگوارملاقات کوطنزوتشنیع کانشانہ بنایااورکہاگیاکہ یہ سب آپس میں ایک ہیں عوام کولبھانے کیلئے ایکدوسرے کے خلاف سخت زبان استعمال کی جاتی ہے مگرجب آپس میں ملتے ہیں توشیروشکرہوجاتے ہیں۔وزیراعلیٰ نے اس کاجواب دیتے ہوئے کہا کہ مسکراہٹوں کے تبادلے یااچھے اندازکی ملاقات پختون روایات اورسرکاری ذمہ داریوں کاحصہ ہے اسکاقطعاًیہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے قائد سے بے وفائی کے مرتکب ہوئے ہیں بطورپختون ہماری کچھ روایات ہیں جن کے مطابق چلناپڑتاہے اوربطورچیف ایگزیکٹیوعہدے کے تقاضے ہیں جنہیں نبھاناپڑتاہے۔سنجیدہ وفہمیدہ سیاسی حلقوں اورتجزیہ کاروں نے ملاقات کوسراہا اورقراردیاکہ سیاسی مخالفت کو ذاتی مخاصمت میں تبدیل کرنا غیرجمہوری روئیے ہیں۔
صوبے میں سینیٹ انتخابات کااعلان ہوچکاہے۔ 21جولائی کوصوبائی اسمبلی بلڈنگ میں گیارہ سینٹرزکاانتخاب ہوگا۔جس کیلئے جوڑتوڑ اور ملاقاتوں کاسلسلہ عروج پرہے۔خیبرپختونخواسے سینیٹ کی 11نشستیں گزشتہ سال مارچ میں خالی ہوئی ہیں۔مخصوص نشستوں کی تقسیم پر چونکہ مقدمہ عدالتوں میں زیرسماعت رہااسلئے سواسال کی تاخیرسے انتخابات منعقدہورہے ہیں۔ 7 جنرل،2ویمن اور دو ٹیکنوکریٹ نشستو ں پرانتخاب ہوناہے۔145رکنی ایوان میں 93ارکان کی موجودہ تعدادکے لحاظ سے حکمران جماعت کو7میں سے 5 جنرل،1 ویمن اور ایک ٹیکنوکریٹ نشست ملنایقینی ہے۔ اپوزیشن نے اگراتفاق واتحادکامظاہرہ کیا تواسے 2 جنرل،ایک ویمن سمیت ایک ٹیکنوکریٹ کی نشست مل سکتی ہے۔صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پربھی پھڈاجاری ہے۔پہلے پی ٹی آئی پی اوراے این پی نے کم نشستیں ملنے پرہائی کورٹ سے رجوع کیاپھرن لیگ بھی جے یوآئی کوزیادہ نشستیں ملنے کی فریادلیکرعدالت عالیہ پہنچ گئی۔جہاں سے الیکشن کمیشن کوحکم ملا کہ سیاسی جماعتوں کوسن کرسیٹ الاٹمنٹ کی جائے اورسیاسی جماعتوں کے تحفظات دورکئے جائیں۔اے این پی نے بھی ہائیکورٹ کے بعد اب الیکشن کمیشن سے جبکہ پی ٹی آئی پی نے اسلام آبادہائیکورٹ سے رجوع کیاہے۔اس تمام نقل وحرکت کے نتیجے میں جے یوآئی کو 2 اضافی نشستوں سے ہاتھ دھونے پڑسکتے ہیں۔تحریک انصاف کے نامزدامیدوارآزادحیثیت سے سینیٹ انتخاب میں حصہ لینگے۔آصف رفیق،اظہرمشوانی،خرم ذیشان،شفقت آیاز،عرفان سلیم،فیصل جاوید،فیض الرحمان،اعظم سواتی،وقاص اورکزئی،مرادسعید، مرزامحمد آفر یدی اورپیرنورالحق قادری آزادامیدوارہیں۔امیرمقام کے صاحبزادے نیازاحمدن لیگ،طلحہ محمودپیپلزپارٹی اورعطاء الحق درویش جے یوآئی کے امیدوار ہیں۔خواتین کی دونشستوں پرچارامیدوارہیں جن میں روبینہ خالدپیپلزپارٹی،جبکہ روبینہ ناز،عائشہ بانو اورمہوش علی آزادامیدوارہیں۔ 2ٹیکنوکریٹ نشستوں پر6میدوارہیں جن میں خالدمسعود،سیدارشادحسین،اعظم سواتی،نورالحق قادری اور وقار احمد قاضی آزادجبکہ دلاور خان جے یوآئی کے امیدوارہیں۔اگرانتخابات ہارس ٹریڈنگ وغیرہ سے محفوظ رہے تو5 جنرل 1 ویمن اور1 ٹیکنو کریٹ نشست حکمران جماعت کومل سکتی ہے جبکہ 2جنرل،1 ویمن اور1ٹیکنوکریٹ نشست اپوزیشن جماعتوں کے حصے میں آسکتی ہے۔
پشاورکے معروف بلورخاندان کی ثمرہارون بلوراے این پی سے اپنی راہیں جداکرکے ن لیگ کوپیاری ہوگئیں۔انکایہ فیصلہ اے این پی کیلئے کسی دھچکے سے کم نہیں۔بلورخاندان گزشتہ سات دہائیوں سے اے این پی کاحصہ رہاہے بلکہ بلورخاندان اوراے این پی ایکدوسرے کیلئے لازم وملزوم سمجھے جاتے تھے۔ثمربلورکے سسربشیربلوراورانکے شوہرہارون بلوردہشت گردوں کانشانہ بنے۔بشیربلوراس وقت شہید کردئے گئے جب وہ اے این پی کی صوبائی حکومت میں سنیئروزیرتھے جبکہ ہارون بلور2018ء الیکشن مہم کے دوران خودکش دھماکے میں نشانہ بنائے گئے۔انکی ناگہانی وفات پرثمربلورنے ضمنی الیکشن میں کامیابی حاصل کی جوپشاور سے کسی خاتون کی پہلی کامیابی تھی۔ثمربلورجام صادق دور میں سندھ کے صوبائی وزیر عرفا ن اللہ مروت کی صاحبزادی، سابق صدرپاکستان غلام اسحاق خان کی نواسی،عمرایوب اورتیمورسلیم جھگڑاکی قریبی رشتے دارہیں۔وہ اے این پی کی رکن صوبائی اسمبلی اورپارٹی ترجمان کے عہدے پرفائز رہیں۔وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقا ت میں انہوں نے ن لیگ میں شمولیت اختیارکی۔انہیں ن لیگ نے مخصوص نشست پرقومی اسمبلی کاٹکٹ بھی جاری کیاہے۔ حاجی غلام احمد بلوراس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔وہ بدستوراپنی پارٹی سے وابستگی جاری رکھے ہوئے ہیں۔اے این پی کے صدرایمل ولی خان نے ثمر بلور کیلئے نیک خواہشات کااظہارکیاہے۔اے این پی کیلئے ایک اوربری خبریہ رہی کہ مولاناخان زیب دہشت گردحملے میں شہیدہوگئے۔وہ گزشتہ عام انتخابات میں باجوڑسے قومی اسمبلی کے امیدوارتھے۔مولانامدلل اور پرمغز گفتگو کرنے والے ایک بہترین مقرر، محقق،تاریخ دان،دانشوراورجدیددورکے تقاضوں سے باخبرسیاسی راہنماتھے پختون قوم پرست نظریات پرعمل پیرا تھے۔مولاناخان زیب ملکی،قومی، سیاسی اوردینی موضوعات پرکالم نگاری بھی کرتے تھے۔
