وصال محمدخان
قومی اوردوصوبائی اسمبلیوں کی آئینی مدت رواں ہفتے پوری ہورہی ہے جس کے بعد آئینی طورپرتوالیکشن کااعلان لازمی ہے مگرغیریقینی کی فضامیں انتخابات اگلے سال تک ملتوی ہونے کی افواہیں گرم ہیں صوبے کاہرشہری دوسرے سے پوچھتانظرآرہاہے کہ انتخابات ہونگے یا نہیں؟وزیراعظم،وفاقی وزراورسیاسی پنڈتوں کے خیال میں اگلے برس کے اوائل تک انتخابات کالتواخارج ازامکان نہیں۔بہرحال آئین واضح ہے کہ انتخابات کب اورکیسے ہونے ہیں اس حوالے سے کوئی ابہام موجودنہیں مگرالتواکیلئے سوبہانے ڈھونڈے جاسکتے ہیں۔خیبرپختو نخوامیں سیاسی سرگرمیوں کاآغازہونے لگاتھااور متوقع انتخابات کیلئے ماحول بن رہاتھااسی اثنامیں باجوڑکااندوہناک واقعہ رونماہواجہاں جے یوآئی ورکرزکنونشن میں دھماکے سے اب تک 63افرادجام شہادت نوش کرچکے ہیں جبکہ ڈیڑھ سوکے قریب زخمی ہیں اس خودکش حملے سے صوبے کی فضانہ صرف سوگوارہے بلکہ آمدہ انتخابات کے انعقاد پربھی شکوک وشبہات کے سائے منڈلانے لگے ہیں بم دھماکوں کی گونج گرج میں نہ صرف انتخابی مہم چلانادشوارہے بلکہ اجتماعات میں عوام کی شرکت بھی نہ ہونے کے برابرہوگی باجوڑحملے سے گورنرغلام علی کی بات بھی درست ثابت ہوگئی انہوں نے صوبائی اسمبلی انتخابات کے انعقادپر ہائیکورٹ اورسپریم کورٹ کے سامنے یہی مؤقف اپنایاتھاکہ صوبے میں امن وامان کی خراب صورتحال کے پیش نظرانتخابات کاانعقادممکن نہیں باجوڑحملے سے قبل وزیرستان میں سیکیورٹی فورسزپردوحملے ہوچکے ہیں جبکہ خیبراورپشاورمیں بھی دہشت گردی کے تین واقعات رونماہوئے ہیں جواس بات کااشارہ دے رہے ہیں کہ صوبے میں پر امن انتخابات کاانعقادبہت ہی مشکل ہے اگرچہ حالات 2013ء جیسے نہیں جب اے این پی اورپیپلزپارٹی کوکھل کرحملوں کانشانہ بنایاگیا اور امیدواروں کوانتظامیہ کی جانب سے اجتماعات میں شرکت نہ کرنے کے احکامات جاری ہوتے تھے،مگرصورتحال تسلی بخش بھی نہیں بلکہ تشویشناک ہے۔صوبے میں جونگران حکومت موجودہے یہ جے یوآئی کی حکومت سمجھی جارہی ہے اورایک بڑاحملہ بھی اسی جماعت کے اجتماع پرہواہے حملے کی ذمہ داری اگرچہ تاحال کسی تنظیم نے قبول نہیں کی مگرشواہد داعش کی جانب اشارہ کررہے ہیں گزشتہ ماہ اقوام متحدہ میں جو رپورٹ پیش کی گئی اس میں بھی کہاگیاہے کہ تحریک طالبان پاکستان،القاعدہ اورداعش کااتحادممکن ہے اگرایساہواتویہ خطے کیلئے تباہ کن ہوگا، صوبے کے فہمیدہ حلقے شدت سے اس رائے کااظہارکررہے ہیں کہ محمودخان حکومت نے جوطالبان جیلوں سے رہاکئے یاانہیں افغانستان سے لاکریہاں آبادکیا حالیہ دہشت گردی میں وہی عناصرملوث ہیں۔دہشت گردی واقعات میں اضافہ نگران حکومت کیلئے بہت بڑاچیلنج ہے جس سے عہدہ برآ ہونے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے نگران حکومت کااصل ہدف شفاف انتخابات ہیں جوامن وامان کی موجودہ صورتحال میں ممکن نہیں یہ حکومت پہلے ہی انتخابات کے انعقادمیں امن وامان کے سبب ساڑھے چھ ماہ کی تاخیرکرچکی ہے حکومت اپنی ذمہ داری سے روگردانی کی مرتکب ہورہی ہے اور باقاعدہ سیاسی حکومت کاروپ دھارچکی ہے 2002 ء کے بعدجب سے نگران حکومتوں کا سلسلہ شروع ہواہے یہ پہلی نگران حکومت ہے جوسیاسی بنیادوں پروجودمیں آئی ہے گورنرتوکھل کرجے یوآئی کے حامی ہیں مگرکئی وزراء کاتعلق بھی جے یوآئی سے ہے اسلئے لوگ اسے نگران نہیں بلکہ جے یوآئی کی نمائندہ حکومت سمجھتے ہیں ان حالات سے تنگ آکرالیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی انگڑائی لی ہے اوراے این پی کے شاہدخٹک کواس بناپرڈی نوٹیفائی کردیاگیاکہ انہوں نے نوشہرہ میں عوامی اجتماع سے خطاب کیاشاہدخٹک نہ صرف دبنگ سیاسی شخصیت کے مالک ہیں بلکہ اے این پی کیساتھ ان کاتعلق بھی خاصامضبوط ہے انہیں پارٹی نے گزشتہ انتخابات میں دوصوبائی حلقوں سے ٹکٹ جاری کئے وہ عوامی اجتماعات میں پرویزخٹک کورگیدنے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے انہیں ڈی نوٹیفائی کرنے کے بعدعلم ہواکہ انہوں نے تودودن قبل ہی استعفیٰ دیاتھا الیکشن کمیشن کایہ وارناکام رہنے پرسیکرٹری الیکشن کمیشن کوساڑھے چھ ماہ بعدعلم ہواکہ نگران کابینہ سیاسی بنیادوں پرتشکیل پائی ہے اسلئے انہوں نے وزیراعلیٰ کے نام خط میں کہاہے کہ”الیکشن کمیشن کے نوٹس میں آیاہے کہ نگران کابینہ کی تقرری سیاسی بنیادوں پرہوئی ہے جس کی واضح مثال شاہدخٹک ہے، دیگرکئی وزرانے بھی میڈیاپراپنی سیاسی وابستگی تسلیم کی ان وزرا، مشیران،معاونین خصوصی کاروئیہ الیکشن ایکٹ2017ء کے منافی ہے اسلئے ایسے کابینہ ارکان کوعہدوں سے فارغ کیاجائے تاکہ آمدہ انتخابات کی شفافیت پرانگلی اٹھانے کاموقع نہ مل سکے“۔نگران وزیراعلیٰ نے کابینہ کااجلاس بلاکرمعاملات سدھارنے کافیصلہ کیاہے۔اتحادیوں کے دل میں لڈوپھوٹ رہے ہیں اگرسیاسی بنیادوں پرکابینہ ارکان فارغ ہوتے ہیں تواس کا زیادہ نقصان جے یوآئی کوہوگااتحادی اس اقدام کاخیرمقدم کرینگے ایک اتحادی جماعت کے اعلیٰ عہدیدارکا کہناتھاکہ صوبے میں عملاًجے یوآئی کی حکومت ہے کابینہ میں اسکے پندرہ سے زائدارکان موجود ہیں دیگرجماعتوں کے دوچارارکان ہی کابینہ میں شامل ہیں اے این پی کے شاہدخٹک نے ازخوداستعفیٰ دیاہے جبکہ عدنان جلیل کوپارٹی نے خودفارغ کروایاہے اسطرح پارٹی نگران کابینہ سے نکل چکی ہے۔
نگران حکومت نے قبائلی انضمام کے بعدنافذالعمل ساتویں این ایف سی ایوارڈکوغیرآئینی قراردیتے ہوئے مرکزسے فوری طورپرنیاعبوری ایوارڈجاری کرنے کامطالبہ کیاہے وفاق کے ذمے 700ارب روپے واجبات کی تفصیلات بھی جاری کردی گئی ہیں جنہیں فوری طورپرادا کرنے کامطالبہ کیاگیاہے ضم قبائلی اضلاع کے حوالے سے مالی سال2019-20سے2022-23تک جاریہ اورترقیاتی بجٹ کی مد میں 144.4ارب روپے واجب الاداہیں جبکہ ترقیاتی پروگرام کے تحت سالانہ100ارب روپے کے حساب سے گزشتہ چاربرسوں میں 400ارب کی بجائے محض 75.5ارب کی ادائیگی ہوئی ہے۔سیکرٹری خزانہ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے پہلے نوماہ میں فیڈرل بورڈآف ریونیونے5155ارب روپے محاصل کی ریکوری کی ساتویں این ایف سی ایوارڈکے تحت اس میں صوبے کاحصہ471.3ارب روپے بنتاہے جبکہ صوبے کو457.7ارب روپے موصول ہوئے ہیں 13ارب واجب الاداہیں،فیڈرل ٹیکس اسائمنٹ کی مدمیں 18 ارب، قبائلی اضلاع کیلئے کرنٹ اورڈویلپمنٹ کی مدمیں 47ارب روپے بقایاہیں،آئین کے آرٹیکل161کے تحت بجلی خالص منافع کی صوبوں کو ادائیگی وفاق کی ذمہ داری ہے گزشتہ مالی سال کے دوران بجلی منافع کی مدمیں 63ارب روپے بنتے ہیں جن میں سے صرف 4.9ارب روپے کی ادائیگی ہوئی ہے۔صوبے کی مالی حالت تشویشناک ہے وفاق کوصوبے کے حالات پررحم کھاتے ہوئے بقایاجات کی ادائیگی یقینی بنانی چاہئے تحریک انصاف کی دوحکومتوں اوردہشت گردی سے شدیدمتاثرہ صوبے کے واجبات روکناکسی طورمناسب نہیں۔
انتخابات کی متوقع انعقادکے پیش نظراے این پی نے رنڑا(روشنی) کے نام سے اپنے انتخابی منشورکوحتمی شکل دے دی ہے جس کے چیدہ چیدہ نکات میں یونیورسٹی تک مفت تعلیم،یونیورسٹی میں زیرتعلیم طالبات کوماہانہ5ہزارروپے وظیفہ کی ادائیگی،صوبائی سطح پرہائیرایجوکیشن کمیشن کاقیام،ضلعی حکومتوں کی مکمل خودمختاری،یوتھ پروگرام کااجرا،خواتین کیلئے فنڈزمختص کرنا،غگ،سورہ اورچھوٹی عمرمیں شادی پرپابندی کیلئے قانون سازی،ضم اضلاع میں خصوصی اکنامک زونزکاقیام اورہرصوبائی حلقہ میں سپورٹس کمپلیکس شامل ہے۔پرویزخٹک کی پی ٹی آئی پارلیمنٹرین نے بھی پرپرزے نکالنے شروع کئے ہیں پرویزخٹک پارٹی چیئرمین جبکہ محمودخان کووائس چیئرمین ”منتخب“ کیا گیاہے۔منشور، جھنڈے،انتخابی نشان اوردیگرامورپرغوروخوض جاری ہے۔ پرویزخٹک آمدہ انتخابات میں کامیابی کیلئے پرعزم ہیں۔