Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Sunday, April 20, 2025

خیبرپختونخوا راؤنڈاَپ

وصال محمدخان
تحریک انصاف کی متوقع سیاسی تحریک

پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے تحریک کے اعلانات پر عید کے بعد صوبے کی سیاست میں ہلچل متوقع تھی۔ پی ٹی آئی قائدین نے رمضان سے ایک ماہ قبل منہ سے جھاگ اڑاتے بیانات میں عندیہ دیا تھا کہ عید کے فوری بعد گرینڈ الائنس کے تحت بانی چیئرمین کی رہائی کیلئے تحریک چلائی جائے گی۔ اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمان کے در پر حاضریوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کیا گیا تھا اور یہ تاثر دینے کی کوشش ہو رہی تھی کہ مولانا پی ٹی آئی کے ساتھ گرینڈ الائنس میں شمولیت پر آمادہ ہیں بس کچھ رسمی کارروائی باقی ہے۔ انہی صفحات پر بارہا عرض کیا جا چکا ہے کہ مولانا کیوں کر پی ٹی آئی کیلئے اپنے کاندھے پیش کر سکتے ہیں؟ توقعات کے عین مطابق گرینڈ الائنس کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور یہ اتحاد تاحال کسی پیش رفت سے کوسوں دور ہے۔

مائنز اینڈ منرلز بل

عید کے بعد صوبے کے سیاسی ماحول میں ہلچل دکھائی دے رہی ہے مگر یہ مائنز اینڈ منرلز بل کے حوالے سے ہے۔ چند ہفتے قبل یہ بل اسمبلی میں پیش کیا گیا مگر اپوزیشن سمیت تحریک انصاف کے اندر سے مخالفت سامنے آنے پر منظوری مؤخر کر دی گئی۔ علیمہ خان نے صوبائی حکومت کو بانی چیئرمین کی رہائی تک بل کی منظوری مؤخر کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس مفت مشورے کو اگرچہ حکومت نے درخور اعتنا نہ سمجھا مگر یہ پارلیمانی پارٹی کو تقسیم کرنے کا باعث ضرور بنا۔ ایک دھڑا بل کی حمایت جبکہ دوسرا مخالفت پر کمر بستہ ہے، حتیٰ کہ صوبائی کابینہ بھی یکسو نہیں۔ کچھ وزرا بل کی حمایت میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں جبکہ چند وزرا کو بانی چیئرمین کی رہائی تک مؤخر کرنے کا مشورہ بھایا ہے۔

پارٹی میں اختلافات اور ورکرز کنونشنز

صوبائی صدر جنید اکبر نے کئی اضلاع میں ورکرز کنونشن منعقد کئے جہاں انہوں نے منرلز بل اور دیگر معاملات پر صوبائی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ پی ٹی آئی کے پاس جلسوں میں پر جوش خطابات کیلئے کوئی موضوع دستیاب نہیں، اسلئے اپنی ہی حکومت پر تنقید کر کے انگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام لکھوانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صوبائی حکومت نے منرلز بل پر ارکان صوبائی اسمبلی کو بریفنگ دینے کا اہتمام کیا مگر ارکان کے تیور کو دیکھتے ہوئے یہ بریفنگ پیر تک ملتوی کر دی گئی۔ اس موقع پر اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے درمیان منہ ماری ہوئی اور بیس کے قریب حکومتی ارکان نے واک آؤٹ کیا، جس پر سپیکر نے یہ اجلاس ایک ہفتے کیلئے ملتوی کر دیا۔

مجوزہ بل پر وائٹ پیپر اور حکومتی مؤقف

صوبائی حکومت نے مجوزہ مائنز اینڈ منرلز بل کے حوالے سے وائٹ پیپر بھی جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ “معدنیات کے قوانین کو دیگر صوبوں سے ہم آہنگ کیا جائے گا، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا، معدنیاتی ٹائٹلز اور لائسنسنگ کو ڈیجیٹل مائننگ سسٹم کے ذریعے شفاف اور قابل رسائی بنایا گیا ہے، لیز کے حصول کیلئے لائسنس کی مدت کم کرکے 3 سال کر دی گئی ہے، فوری انصاف کیلئے آزاد اور بااختیار اپیلٹ ٹریبونل قائم کیا جائے گا، غیر قانونی مائننگ پر پابندی کیلئے خصوصی فورس قائم کی جائے گی، مشینری کی ضبطی اور سزاؤں کے ذریعے غیر قانونی مائننگ کی روک تھام کی جائے گی، نئی قانونی سازی کے باوجود پہلے سے دی گئی لیزز اور درخواستیں برقرار رہیں گی، ضم اضلاع کیلئے مواقع اور چھوٹے پیمانے کی مائننگ کیلئے سرمایہ کاری کی حدود واضح کی گئی ہیں۔”

تحقیقاتی کمیٹی اور ممکنہ ترامیم

وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ ہم نے شعبہ معدنیات میں بہتر پالیسی اور اصلاحات کے ذریعے صوبے کی آمدن میں اضافہ کیا، گزشتہ 76 برسوں سے گولڈ کی چار سائٹس میں غیر قانونی مائننگ ہو رہی تھی، ماضی کی کسی حکومت نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ حکومت نے مائنز اینڈ منرلز بل پر پارٹی اور اپوزیشن ارکان کی جانب سے اعتراضات کے بعد تفصیلی جائزے کیلئے ارکان قومی اسمبلی علی اصغر، ارباب شیر علی اور ڈاکٹر امجد پر مشتمل تین رکنی کمیٹی بنا دی ہے جو بل کا تفصیلی جائزہ لے کر اس میں موجود سقم اور ابہامات کی نشاندہی کرے گی اور شفافیت کے فروغ، صوبائی خودمختاری کے تحفظ، عوامی حقوق کے احترام اور قانون کو وسیع تر عوامی مفاد کے مطابق بنانے کیلئے سفارشات پیش کرے گی۔ کمیٹی کو اختیار ہوگا کہ وہ متعلقہ ماہرین، قانونی و سماجی راہنماؤں اور ذی فہم افراد سے مشاورت کرے۔

اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات اور ممکنہ احتجاج

بل کے ابتدائی جائزے اور مختلف سطحوں پر اٹھنے والے تحفظات کے بعد واضح ہو چکا ہے کہ اس پر مزید وضاحت اور ممکنہ ترامیم ناگزیر ہیں۔ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباداللہ، صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم اور پی پی کے پارلیمانی لیڈر احمد کریم کنڈی نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ مائنز اینڈ منرلز بل صوبے کا مینڈیٹ ہے، اس پر مزید بحث کی ضرورت ہے، ہمارے لئے سب سے پہلے صوبہ اور اس کے مفادات ہیں۔ وزیر قانون آفتاب عالم نے کہا کہ “یہ بل باقاعدہ طریقہ کار کے تحت آیا تھا، کابینہ اجلاس میں بھی اراکین کی تجاویز پر ترامیم کی گئیں جبکہ اسمبلی کو بھی مزید ترامیم کا اختیار حاصل ہے۔ اسمبلی میں بحث بھی ہوگی اور ارکان کو بولنے کا موقع بھی دیا جائیگا، یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ جب یہ بل پیش کیا گیا تو عید قریب تھی جس کے باعث اراکین کو کاپیاں نہ مل سکیں۔ بل پر تمام اعتراضات دور کئے جائیں گے، اس بل کو اوپن فورم پر لانے کا اعزاز پورے ملک میں ہماری اسمبلی کو حاصل ہوا۔”

اے این پی، جے یو آئی اور جماعت اسلامی کا ردعمل

اے این پی کے سربراہ ایمل ولی خان نے بل پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کے خلاف احتجاجی تحریک کا اعلان کیا ہے۔ اپریل اور مئی کے مہینوں میں عوامی آگاہی مہم چلائی جائے گی، جون میں ویلیج کونسلز، جولائی میں تحصیل، اگست میں ضلعی ہیڈکوارٹرز اور ستمبر میں صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاج، جبکہ مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں اکتوبر میں اسلام آباد کا رخ کیا جائے گا اور بہت جلد آل پارٹیز کانفرنس بھی بلائی جائے گی۔ جماعت اسلامی اور جے یو آئی بھی بل کی مخالف ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے اس کو صوبائی خودمختاری پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بل صوبے کے وسائل پر ڈاکہ کے مترادف ہے، اس کے ذریعے وفاق صوبائی وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے مگر ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ جماعت اسلامی کے راہنما عنایت اللہ خان نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے مکینوں کو اپنے وسائل سے بے دخل کرنے کی بجائے بل سے متعلق تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے، حکمران جماعت یکطرفہ قانون سازی کی بجائے اتفاق رائے پیدا کرے۔

قومی معاملہ یا سیاسی پوائنٹ سکورنگ؟

جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق مائننگ اینڈ منرلز بل پر چاروں جانب سے اعتراضات سامنے آ رہے ہیں اور ہر سیاسی جماعت کی خواہش ہے کہ وہ اس پر زیادہ سے زیادہ سیاسی فوائد سمیٹے۔ ایک طرح سے یہ بل سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا ذریعہ بن چکا ہے، ہر سیاسی راہنما مندر کی گھنٹی سمجھ کر اسے بجا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی نوعیت کے اہم معاملے کو سیاست زدہ کرنے کی بجائے تمام سیاسی راہنما مل بیٹھ کر غور کریں اور معقول تجاویز دیں، کیونکہ اس سے ملک و قوم کا مستقبل وابستہ ہے۔ جو معدنیات گزشتہ پون صدی سے یا تو ضائع ہو رہی ہیں یا پھر اونے پونے داموں حکومتوں کے من پسند افراد ان سے مستفید ہو رہے ہیں، یہ ناروا سلسلہ اب رکنا چاہئے۔ سیاستدانوں کو منہ سے جھاگ اڑا کر بولنے اور سیاست چمکانے کا موقع ہاتھ آیا ہے، مگر یہ ایک حساس معاملہ ہے جسے تدبر اور دانشمندی سے ڈیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہوگا۔

وائس آف کے پی اور اسکی پالیسی کا لکھاری کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

خیبرپختونخوا راؤنڈاَپ

Shopping Basket