خیبرپختونخواراؤنڈاَپ

ہفتہء گزشتہ کے دوران آرمی چیف جنرل عاصم منیرنے پشاورکادورہ کیااوریہاں کے تمام قابل ذکرسیاسی راہنماؤں کیساتھ نہ صرف ملاقات کی بلکہ انہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے بھی اعتمادمیں لیا۔ ملاقات میں نہ صرف صوبے کے چارسابق وزرائے اعلیٰ آفتاب شیرپاؤ، امیرحیدرہوتی، پرویزخٹک اورمحمودخان موجودتھے بلکہ موجودہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپوراورگورنرفیصل کریم کنڈی بھی شریک ہوئے۔ جے یوآئی کی نمائندگی مولاناعطاء الحق، پی ٹی آئی جبکہ جماعت اسلامی کے مرکزی امیرحافظ نعیم سمیت صوبائی امیر پروفیسر ابراہیم بھی ملاقات کاحصہ تھے۔

صوبے کی تاریخ کے اس اہم اجلاس یاملاقات کے حوالے سے جو چیدہ چیدہ باتیں سامنے آئیں انکے مطابق گورنرفیصل کریم کنڈی اوروزیراعلیٰ گنڈاپورکے درمیان اچھی خاصی جھڑپ ہوئی گورنرنے آرمی چیف سے کہاکہ وفاق کی جانب سے صوبے کودہشت گردی کی مدمیں دئے گئے پانچ سوارب روپے حکمران جماعت نے سیاسی سرگرمیوں پرخرچ کردئے اگراس رقم سے سی ٹی ڈی اورپولیس کی ضروریا ت پوری کی جاتیں توصوبہ آج دہشت گردی کامقابلہ کرنیکی صلاحیت سے مالامال ہوتا۔ اس دوران وزیراعلیٰ نے گورنرکوترکی بہ ترکی جواب دیاجس پرگورنرنے بھی حکومت کی کان کھنچائی ضروری سمجھی تلخی بڑھنے پروزیراعلیٰ اجلاس سے اٹھ کرباہرچلے گئے مگربعدمیں وہ ازخودواپس چلے آئے۔

جماعت اسلامی کے امیرحافظ نعیم نے کراچی کامعاملہ اٹھادیا جس پر عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدرایمل ولی خان نے انہیں ٹوکااورکہاکہ یہ اجلاس صوبے کے حوالے سے ہے اوریہ صوبہ دہشت گردی کے جس آگ میں جل رہاہے اس میں جماعت اسلامی کاکرداربھی ناقابل فراموش ہے اسی جماعت نے یہاں جہادکو فروغ دیا اور انکے بنائے گئے جہادی صوبائی باشندوں کوماررہے ہیں ایمل ولی خان نے نہ صرف صوبائی حکومت بلکہ تحریک انصاف کے سابقہ حکومتوں کوبھی دہشتگر دی کاذمہ دارقراردیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں ایمل ولی خان سب سے زیادہ بولے اوردہشت گردی کے حوالے سے دیگرجماعتوں اور حکومتوں کی پالیسیوں کوتنقیدکانشانہ بنایاانہوں نے وزیراعلیٰ کے مشیربیرسٹرسیف کوبھی دہشت گردوں کاساتھی قراردیا اور کہا کہ وہ افغان جنگ میں شرکت کااعتراف کرچکے ہیں اگر صوبائی کابینہ میں دہشت گردشامل ہونگے توحکومت دہشت گردی کاخاتمہ کیونکر کرسکتی ہے؟ یہی مشیرمحمودخان حکومت میں افغانستان جاکرطالبان سے مذاکرات کرچکے ہیں اورانہیں یہاں لاکرآبادکروانے میں ان کاہاتھ ہے۔

اجلاس یاملاقات کامقصدافغانستان اورفتنہ الخوارج کے حوالے سے صوبے کی سیاسی قیادت کواعتمادمیں لیناتھااس موقع پرآرمی چیف کا کہنا تھاکہ ‘‘افغانستان کیساتھ ہمارے صرف یہی اختلافات ہیں کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کوپناہ دئے ہوئے ہے اوراسکے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہے، ریاست ہے توسیاست ہے خدانخواستہ ریاست نہیں رہی توکچھ بھی نہیں،ہماری پالیسی صرف اورصرف پاکستان ہے، افغا نستان ہماراپڑوسی اسلامی ملک ہے اورپاکستان ہمیشہ افغانستان کیساتھ بہترتعلقات کاخواہاں رہاہے، افغانستان سے صرف فتنہ الخوارج کی وہاں موجودگی اورسرحدپارسے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے پراختلاف ہے اوراس وقت تک رہے گا جب تک وہ اس معاملے پر اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے، خیبرپختونخوامیں بڑے پیمانے پرکوئی آپریشن نہیں ہورہااورنہ ہی فتنہ الخوارج کی پاکستان کے کسی بھی علاقے پرعملداری ہے، صرف انٹیلی جنس بنیادپرٹارگٹڈکارروائی کی جاتی ہے،ہم سب کوبلاتفریق فسادفی الارض اور دہشت گردی کے خلاف یکجاہوناپڑیگا،ہم اتحادواتفاق کامظاہرہ کرینگے توصورتحال بہت جلد تبدیل ہوجائیگی،انسان خطاکاپتلاہے ہم سب غلطیاں کرتے ہیں لیکن غلطیوں کونہ ماننااوران سے سبق نہ سیکھنااس سے بھی بڑی غلطی ہے،عوام اورفوج کے درمیان ایک خاس رشتہ ہے اس رشتے میں خلیج کیلئے جھوٹابیانیہ گھڑنابنیادی طورپربیرون ملک سے ایک مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ہے نیشنل ایکشن پلان پرتمام سیاسی جماعتوں کا اتفا ق حوصلہ افزاہے اس پرتیزی سے کام کرناہوگا’’۔

صوبے کے سنجیدہ وفہمیدہ حلقوں نے آرمی چیف کی جانب سے سیاسی قیادت کواعتمادمیں لینے کا اقدام سراہاہے۔ نیشنل ایکشن پلان پرعملدرآمدکاعزم خوش آئندہے صوبے سے تعلق رکھنے والی بیشترسیاسی جماعتوں خصوصاًاے این پی کامطالبہ رہاہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمدکیاجائے۔ مذکورہ نشست میں عزم استحکام کے حوالے سے بھی گفتگوہوئی کچھ سیاسی جماعتوں خاص طورپر تحریک انصاف نے صوبے میں ایک مکمل فوجی آپریشن کاتاثرقائم کیاتھااوراسکے خلاف باقاعدہ بیان بازی بھی کی گئی مگر آرمی چیف نے کسی بڑے فوجی آپریشن کے امکان کومستردکرتے ہوئے کہاکہ انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیاں کی جاتی ہیں جس کے خاطرخواہ نتائج برآمدہوئے ہیں۔ فتنہ الخوارج کے حوالے سے سیاسی قیادت نے پاک فوج کے اقدامات پراعتمادکااظہار کیا۔ سیاسی قیادت اورپاک فوج کی معاملہ فہمی اوراتحادواتفاق کایہی جذبہ رہاتوکوئی بعیدنہیں کہ ملک وقوم کودہشت گردی کی لعنت سے جلد نجات ملے۔

گزشتہ ماہ خیبرپختونخوامیں دس ارب روپے کی گندم خراب ہونے کاجوسکینڈل منظرعام پرآیاتھااس کے حوالے سے خوش کن خبریہ ہے کہ صوبہ دس ارب روپے کے ایک بڑے مالی نقصان سے بال بال بچاہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی اینڈجین ٹیکل انجینئرنگ فیصل آبادنے گندم کوانسانی صحت کیلئے تسلی بخش قراردیاہے اس سے قبل دو لیبارٹریوں کوگندم کے نمونے بھیجے گئے تھے پی سی ایس آئی آر نے گندم میں افلاٹوکسین کی مقدارزیادہ قراردیکراسے مضرصحت قرار دیاتھا۔ جبکہ نجی لیبارٹری قرشی نے اسے درست قراردیاتھا۔ معاملے کی تحقیقات کیلئے محکمہ خوراک نے ماہرین پرمشتمل ایک ٹیکنیکل کمیٹی بنائی جس نے نمونے فیصل آبادبھجوائے جہاں سے اسے درست قراردیاگیا۔ مگریہ گندم مارچ سے پہلے استعمال کرنیکی سفارش بھی کی گئی ہے۔

یادرہے دس ارب روپے سے زائدمالیت کا77ہزار 762میٹرک ٹن گندم سال2022-23میں نگران حکومت نے پاسکوسے خریدی تھی۔ انہی صفحات پرپہلے بھی نشاندہی کی گئی تھی کہ حکومت کے پاس گندم یاکوئی بھی خوردنی جنس مضرصحت ہونے سے قبل استعمال میں لانے کا نظام ہوناچاہئے بڑی مقدارمیں گندم خراب ہونے کی اطلاعات پر وزار ت خوراک نے ماہرین پرمشتمل جو ٹیکنیکل کمیٹی قائم کی اسکی سفارشات کے مطابق اشیائے خوردونوش کیلئے قائم کردہ پروٹوکول کے تحت گندم سمیت دیگرغذائی اجناس ذخیرہ کرنے کامعیاری طریقہ (فرسٹ اِن، فرسٹ آؤٹ) یعنی پہلے خریدی گئی جنس،پہلے نکالناضروری ہے۔ جبکہ زیربحث معاملے میں ایسانہیں کیاگیا۔ ٹیکنیکل کمیٹی اورتین لیبارٹریو ں کی رپورٹس بھی آچکی ہیں مگرایک بڑی مقدارکی گندم ڈیڑھ ماہ کے اندراستعمال میں لانے کی سفارش کی گئی ہے یہ ممکن نظرنہیں آتاکیونکہ آئندہ ڈیڑھ ماہ کی ضروریات سے یہ گندم بہت زیادہ ہے۔ وزارت خوراک کویہ پہلوبھی مدنظررکھنی ہوگی کہ اسکے پاس روزانہ1555میٹرک ٹن گندم ٹھکانے لگانے کی صلاحیت موجودہے؟ بظاہرتوایک بڑانقصان عارضی طورپرٹل چکاہے مگرنقصان کم سے کم ہونے کاانحصارحکومتی اقدامات پر ہے۔

وصال محمد خان

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket