Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Monday, June 2, 2025

خیبرپختونخوا راؤنڈاَپ

 خیبرپختونخوا میں طوفانی بارشیں، جانی و مالی نقصان

خیبرپختونخوا کے میدانی علاقوں میں گزشتہ ہفتے طوفانی بارشوں، ژالہ باری اور آندھی سے اگرچہ شدید گرمی کا زور ٹوٹ گیا مگر اس سے 2 افراد جاں بحق اور 63 زخمی ہوگئے، کھڑی فصلوں اور باغات کو نقصان پہنچا، اور 113 فیڈرز ٹرپ کرنے سے بیشتر علاقے دو روز تک بجلی سے محروم رہے۔

بجلی کی اس طویل بریک ڈاؤن، موبائل سروس اور انٹرنیٹ بندش سے شہریوں کو گوناگوں مسائل و مشکلات کا سامنا رہا۔ بیشتر علاقوں میں پانی ناپید ہوگیا اور مساجد میں وضو تک کیلئے پانی دستیاب نہ تھا۔ بارش سے اگرچہ موسم کی صورتحال میں عارضی بہتری واقع ہوئی ہے مگر اس کے بد اثرات سے مزید مسائل نے جنم لیا۔

 پیپلزپارٹی کی صوبہ بچاؤ تحریک اور پشاور مظاہرہ

پیپلزپارٹی نے صوبہ بچاؤ مہم کے تحت جو احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، اس سلسلے میں اسمبلی چوک پشاور میں پہلا مظاہرہ کیا گیا۔ اس مظاہرے کیلئے چونکہ پارٹی نے بھرپور عوامی رابطہ مہم چلائی اور کارکنوں سمیت قیادت بھی متحرک رہی، اس لیے پاور شو میں کارکنوں کی قابل ذکر تعداد نے شرکت کی۔

مگر ریڈ زون داخلے کی کوشش میں جیالوں اور پولیس کے درمیان جھڑپ ہوگئی۔ پولیس نے آنسو گیس شیلنگ کی اور لاٹھی چارج کیا گیا جس سے متعدد کارکن زخمی ہوئے اور کئی قائدین کی حالت غیر ہوگئی جنہیں ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ اس دوران ریڈ زون میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا اور اسمبلی چوک میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے جو احتجاجی کیمپ لگایا تھا، پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے اسے اکھاڑ دیا، توڑ پھوڑ کی، پوسٹروں اور جھنڈوں کو جلایا گیا اور پی ٹی آئی کارکنوں کو وہاں سے بھگا دیا گیا۔

 کرپشن سکینڈلز اور حکومتی بے حسی

پیپلز پارٹی کا احتجاج درحقیقت صوبے میں آئے روز کرپشن کے نت نئے سکینڈلز سامنے آنے کے خلاف تھا۔ گزشتہ ایک برس سے صوبے میں کرپشن، بدعنوانی اور سرکاری رقوم میں غبن کے کئی سکینڈلز سامنے آئے ہیں۔

گزشتہ برس گندم کی خریداری میں اربوں روپے کے خردبرد کی کہانیاں سامنے آئیں، اس کے بعد اضاخیل نوشہرہ کے گندم گودام سے کروڑوں روپے کی گندم غائب ہونے کی خبریں منظر عام پر آئیں۔ کوہستان سکینڈل میں 40 ارب روپے ہڑپ کئے گئے جبکہ مردان میں مساجد کی سولرائزیشن کی رقم بھی خردبرد کی گئی۔

تحریک انصاف جو خود کو کرپشن کے خلاف برانڈ کے طور پر پیش کر رہی ہے، اس کی حکومت میں بدعنوانی کے کیسز کا تواتر سے سامنے آنا لمحہ فکریہ ہے اور حکومت کی جانب سے آنکھیں بند کئے رکھنے پر سوالیہ نشان ثبت ہو چکے ہیں۔

 حکومتی رویہ، اپوزیشن کا دباؤ اور ممکنہ خطرات

ایک جانب صوبے کو وفاق سے بجلی کا خالص منافع اور دیگر مدات کی رقوم نہیں مل رہیں اور دوسری جانب حکومتی نمائندگان اور سرکاری افسران دستیاب رقوم پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔ کوہستان سکینڈل پر اگرچہ سپیکر کی سربراہی میں صوبائی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نوٹس لیا اور متعدد ذمہ داروں کو طلب کرکے ان سے بازپرس کی گئی، مردان میں سولرائزیشن سکینڈل کے حوالے سے اسمبلی اور پی اے سی میں حکومتی ارکان نے آواز اٹھائی، اور پی ٹی آئی ایم این اے اور پشاور ریجن کے صدر عاطف خان نے حکومت کو خطوط لکھ کر اس حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کا مطالبہ کیا۔

مگر گندم کے جو دو سکینڈلز سامنے آئے ہیں ان پر چپ سادھ لی گئی ہے اور حکومت کے اطوار سے محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ مذکورہ بالا کرپشن سکینڈلز وہ واقعات ہیں جو یا تو حکومتی اراکین سامنے لائے ہیں یا پھر انہوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے، مگر ان کے علاوہ بھی کئی کیسز موجود ہیں جن کی تحقیقات موجودہ حکومت کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں۔

 پارٹی اختلافات اور باہمی الزامات

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے جب ایک انٹرویو کے دوران شیخی ماری کہ اسد قیصر، شہرام ترکئی اور عاطف خان سازشی ہیں، اسی لیے انہیں صوبائی اسمبلی کے ٹکٹس جاری نہیں کئے گئے، تو ان صاحبان نے علی امین گنڈا پور پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ کہا گیا کہ علی امین نے جتنی رقم خرچ کی ہے یا جو اثاثے ظاہر کئے ہیں وہ اس سے کئی گنا زیادہ اثاثوں کے مالک ہیں، اور ان پر کرپشن کے الزامات بھی لگائے گئے جو تاحال وضاحت طلب ہیں۔

 عوامی تحریکوں کا امکان اور حکومت کیلئے وارننگ

صوبائی حکومت کو کرپشن اور بدعنوانی کے ان الزامات اور سکینڈلز کی تحقیقات کروانی ہوں گی، ورنہ آج صرف پیپلز پارٹی کے احتجاج سے اس کے اوسان خطا ہو گئے، جو خاصی حد تک سکڑ چکی ہے اور اس کی عوامی پذیرائی اس درجے کی نہیں جو 2008ء تک تھی۔

اگر دیگر جماعتیں احتجاج پر کمر کس لیں، جن کے پاس تربیت یافتہ کارکن موجود ہیں، تنظیمیں فعال ہیں اور انہیں عوام میں اچھی خاصی پذیرائی بھی حاصل ہے، جن میں اے این پی، جے یو آئی اور جماعت اسلامی سرفہرست ہیں، تو انہیں روکنا یا دبانا شاید صوبائی حکومت کے لیے ممکن نہ ہو۔

 بانی تحریک انصاف کی رہائی کیلئے نئی تحریک کی تیاری

وزیراعلیٰ نے جیل میں بانی تحریک انصاف سے ملاقات کے بعد ایک بار پھر عندیہ دیا ہے کہ وہ ان کی رہائی کے لیے احتجاجی تحریک دوبارہ شروع کریں گے۔ اس سلسلے کو گزشتہ 26 نومبر سے اس وقت بریک لگ گئے تھے جب ڈی چوک اسلام آباد سے وزیراعلیٰ خود اور بشریٰ بی بی غائب ہو کر مانسہرہ میں نمودار ہوئے تھے، اور بعد ازاں انہوں نے گولیاں چلنے اور سینکڑوں لاشیں گرنے کا لغو بیانیہ ترتیب دیا تھا، جس سے چند ہی ہفتوں میں ہوا نکل گئی تھی کیونکہ یہ بے بنیاد دعوے تھے۔

اب ایک بار پھر اسی راستے پر چلنے کے اشارے دیے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس بار احتجاج اسلام آباد میں نہیں بلکہ پورے ملک میں ہوگا۔ علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ انہیں احتجاج کی سربراہی کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔

 احتجاج کی ناکامی، کارکنوں کی مایوسی

ایک جانب صوبائی صدر جنید اکبر صوبے کے طول و عرض میں کارکنوں کو متحرک کرنے کیلئے سرگرم ہیں، تو دوسری جانب اگر کوئی احتجاج ہوگا تو اس کی سربراہی علی امین کریں گے۔ صوبے کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دوبارہ احتجاج کی دھمکیاں محض پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دینے کی کوششیں ہو سکتی ہیں۔

ایک سالہ احتجاجوں میں کامیابی کی کوئی کہانی موجود نہیں جسے سنا کر کارکنوں کو دوبارہ متحرک کیا جا سکے۔ نہ ہی احتجاجوں سے بانی کی رہائی ممکن ہے، اور نہ ہی اس سے وفاقی حکومت کی صحت پر کوئی اثر پڑنے کا امکان ہے۔

 مخصوص نشستوں کا کیس، حکومت کی آزمائش

اپوزیشن جماعتوں کی نظریں سپریم کورٹ آئینی بنچ میں مخصوص نشستوں کے نظرثانی کیس پر ہیں۔ فیصلہ اگر تحریک انصاف کے حق میں آتا ہے تو اس سے سینیٹ میں اس کے ارکان بڑھ جائیں گے اور صوبائی اسمبلی میں مضبوط پوزیشن مزید مستحکم ہو جائے گی۔

اور فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں اپوزیشن ارکان کی تعداد نہ صرف صوبائی اسمبلی بلکہ سینیٹ میں بھی بڑھ جائے گی۔ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس فیصلے کے بعد صوبائی اسمبلی میں فارورڈ بلاک سامنے آنے کی توقع ہے جس سے حکومت کو بقاء کے لالے پڑ سکتے ہیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ماڈلز یہاں بھی خارج از امکان نہیں۔

وائس آف کے پی اور اسکی پالیسی کا لکھاری کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

خیبرپختونخوا راؤنڈاَپ

Shopping Basket