وصال محمد خان
سرحدوں پر پاک بھارت کشیدگی کے اثرات خیبرپختونخوا میں بھی محسوس کئے جارہے ہیں۔ بھارتی انتہاپسند قیادت کی جانب سے پیدا کردہ جنگی جنون کے نتیجے میں سوشل میڈیا پر بھارتی شہریوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف مغلظات کے جواب میں خیبرپختونخوا کے شہری جاندار تبصرے کرتے ہیں جس سے بھارتی سوشل میڈیا ورکروں کو سبکی کا سامنا ہے۔
پاکستان کو دی جانے والی دھمکیوں کے ردعمل میں پاک فوج کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیلئے ریلیاں نکالی گئیں اور بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ براؤل اور دیر بالا میں قومی لشکر کے زیراہتمام نکالی گئی ریلی کے دوران شرکاء نے بھارت کیخلاف اعلانِ جہاد کا مطالبہ کیا اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کی گئی۔
ریلی سے خطاب کرتے ہوئے زعماء کا کہنا تھا کہ ‘‘بھارت کی جانب سے آبی دہشتگردی اور پاکستان پر بے بنیاد الزامات ناقابل برداشت ہیں، دیر بالا کے عوام 1948ء میں بھارتی بنئے کو سبق سکھا چکے ہیں اور بھارتی فوج کو پسپا کر کے آزاد کشمیر کا قبضہ چھڑانے میں ان کا کردار ناقابل فراموش ہے، بھارتی فوج کو پسپا کر کے ان سے چھینے گئے علاقے کا نام آج بھی دھیرکوٹ ہے، ہم اپنے آباواجداد کے نقش قدم پر چل کر ہندوستان کے خلاف جہاد میں بھرپور حصہ لیں گے، پاک فوج ہمارا فخر اور قیمتی سرمایہ ہے، جنرل عاصم منیر پاک فوج سمیت پوری قوم کے سپہ سالار ہیں اور پوری قوم اپنی مسلح افواج کے ساتھ مل کر بھارت کو صفحہء پستی سے مٹانے کیلئے پرعزم ہے’’۔
گورنر خیبرپختونخوا کا ردعمل
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی نمائش کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘بھارت کو کسی حماقت کا بھرپور جواب ملے گا، ہم نے اپنے ایٹم بم چاند دیکھنے کیلئے نہیں رکھے، ماضی میں بھی بھارت کو منہ توڑ جواب دے چکے ہیں، ہمارے صبر کا امتحان نہ لیا جائے، پَہلگام واقعہ بھارت کا فالس فلیگ آپریشن تھا، جس کا الزام پاکستان پر لگایا گیا، سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ناقابل برداشت ہے، پیپلز پارٹی اس کے خلاف عالمی فورمز سے رجوع کرے گی’’۔
گورنر نے اس موقع پر صوبہ بچاؤ تحریک کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘صوبے کو آگے لے کر جانا ہے اور یہاں امن قائم کرنا ہے، تاجروں کو ٹیکس کے حوالے سے درپیش مشکلات کا ازالہ ہونا چاہئے’’۔
علاوہ ازیں صوبے کی تقریباً تمام سیاسی قیادت نے پاک فوج کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے دفاع وطن کیلئے ہر قسم کی قربانی کا عزم دہرایا ہے اور پاک فوج سے دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ حکمران جماعت کے قائدین اور کارکنوں کا رویہ لاتعلقی پر مبنی رہا۔
خیبرپختونخوا اسمبلی کی قراردادیں
صوبائی اسمبلی نے گزشتہ ہفتے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی سمیت پانچ قراردادوں کی متفقہ منظوری دے دی۔ حکومتی رکن شرافت اللہ کی پیش کردہ قرارداد میں کہا گیا کہ صوبہ گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، پولیس اور عوام اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں، حکومت پاکستان کی افغانستان سے متعلق پالیسی مؤثر ثابت نہ ہوسکی بلکہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف نفرت اور دہشت گردی میں اضافہ ہوا بلکہ تعلقات بھی بگاڑ کا شکار ہوئے۔
امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے پیچیدگی کو جنم دیا ہے، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی اور خطے میں دیرپا قیام امن کیلئے دور رس اور ٹھوس اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں لہٰذا یہ اسمبلی وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ افغانستان سے متعلق پالیسی پر نظرثانی کرکے اسے فوری تبدیل کیا جائے نیز وفاقی حکومت صوبائی حکومت کو بااختیار بنائے تاکہ وہ افغانستان کے ساتھ بامعنی مذاکرات کرے اور مسائل کے پائیدار حل کیلئے مؤثر کردار ادا کرے۔
دوسری قرارداد میں وفاقی حکومت سے افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے دی گئی ڈیڈلائن میں توسیع کا مطالبہ کیا گیا۔ قرارداد کے مطابق کئی دہائیوں سے مقیم افغان مہاجرین نے یہاں نہ صرف اپنا رہن سہن قائم کیا بلکہ وہ کاروبار، تعلیم اور معاشرتی نظام میں بھی ضم ہو چکے ہیں۔ اچانک بیدخلی سے ان کے دلوں میں بداعتمادی کے ساتھ ساتھ کئی مسائل جنم لے سکتے ہیں لہٰذا یہ اسمبلی وفاقی حکومت سے سفارش کرتی ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے مقررہ تاریخ میں توسیع دی جائے تاکہ انہیں باعزت، رضاکارانہ اور منظم واپسی کا موقع مل سکے اور انہیں اپنا ضروری سازوسامان ساتھ لے جانے کی اجازت دی جائے۔
افغان پالیسی اور پی ٹی آئی کا مؤقف
باخبر ذرائع کے مطابق ان قراردادوں کیلئے بانی پی ٹی آئی نے عید کے موقع پر ملاقاتوں کے دوران ہدایت دی تھی مگر اس پر عملدرآمد میں خاصی تاخیر ہوئی۔ پی ٹی آئی جو خود کو افغان مہاجرین کی غمخوار ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے اسے احساس نہیں کہ افغان مہاجرین کی یہاں تھوک کے حساب سے موجودگی کن مسائل کو جنم دے رہی ہے۔
اگر احساس ہے بھی تو وفاق اور فوج کی مخالفت میں اس قسم کی قراردادیں منظور کی جارہی ہیں۔ اگر صوبائی حکومت کے پاس ان مسائل کا کوئی حل موجود ہے تو اس کیلئے قرارداد کی بجائے براہ راست وفاقی حکومت سے بات کی جا سکتی ہے۔ افغانستان سے مذاکرات ایک تو صوبائی حکومت کا مینڈیٹ نہیں، دوسرے پہلے بھی پی ٹی آئی اسی قسم کے مذاکرات سے ملک کو خاصا نقصان پہنچا چکی ہے۔ انہی مذاکرات کے نتیجے میں دہشت گردی کی بڑی لہر نے جنم لیا اور گزشتہ تین برسوں میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ گئے۔
اگرچہ پی ٹی آئی قیادت افغانستان کے ساتھ مذاکرات پر بضد ہے مگر کیا ضمانت ہے کہ آئندہ ہونیوالے مذاکرات کے وہی نتائج برآمد نہیں ہونگے جو پہلے سامنے آئے تھے؟ صوبائی حکومت کو اپنے کام اور گڈگورننس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ دوسروں کے دائرۂ اختیار میں ٹانگ اڑانے کی۔ پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی اجلاس میں اے این پی کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کو وزیراعلیٰ کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جبکہ جنید اکبر کا مؤقف تھا کہ اعلامیے میں اپنے نکات شامل کرنا ہماری بڑی کامیابی ہے۔
شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کی بڑی کامیابی
پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان کے علاقے حسن خیل میں دراندازی کی مذموم کوشش ناکام بناتے ہوئے اب تک کی سب سے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 25 اور 26 اپریل کی درمیانی شب اور اس سے اگلی رات پاک افغان سرحد کے راستے بڑی تعداد میں خوارج کی نقل و حرکت اور دراندازی کی کوشش کو مؤثر حکمت عملی سے ناکام بناتے ہوئے پہلے دن 54 جبکہ دوسرے روز کومبنگ آپریشن میں مزید 17 خوارج کو جہنم واصل کیا گیا ہے۔
ہلاک خارجی دہشت گردوں کے قبضے سے بڑی مقدار میں اسلحہ اور بارودی مواد بھی برآمد کیا گیا۔ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق یہ خوارج غیرملکی آقاؤں کے اشارے پر خونریزی کے ناپاک ارادوں سے آئے تھے۔ پاک بھارت کشیدگی اور جنگ کے منڈلاتے بادلوں کے دوران خوارج کی ان کارروائیوں سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کس کے اشارے پر وطن سے غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ سنجیدہ و فہمیدہ عوامی حلقوں نے سیکیورٹی فورسز کی مؤثر کارروائی کو سراہا ہے۔