کرم مذہبی جنونیوں کے حوالے
وصال محمد خان
وطن عزیزکاایک سنگین مسئلہ مذہبی منافرت اورمسلکی لڑائیاں بھی ہیں جنہیں مفادپرست عناصرہوا دیکرمعصوم اوربے گناہ شہریوں کاخون بہانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اب تک ہزاروں بلکہ لاکھوں بے گناہ افرادفرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ملک میں محرم الحرام کامہینہ آتاہے جس میں ایک فرقہ اپنے مذہبی رسومات اداکرتاہے توحکومت اورسیکیورٹی اداروں کاامتحان شروع ہوتاہے اور ان سب کویہ فکرلاحق ہوجاتی ہے کہ محرم الحرام کوکیسے پرامن اورخونریزی سے پاک بنایاجاسکتاہے۔
باری تعالیٰ کالاکھ لاکھ شکرہے کہ اس مرتبہ محرم الحرام میں شرپسندقوتیں اپنے کسی مذموم کارروائی میں کامیاب نہ ہوسکیں اوراس حساس عشرے کے دوران امن وامان برقراررہا۔ بلاشبہ یہ امن فوج، پولیس اوردیگرسیکیورٹی ایجنسیوں کی انتھک محنت کے سبب ممکن ہوا جس سے فوج، پولیس، حکومت اوردیگرمتعلقہ اداروں نے سکون کاسانس لیامگرمحرم کے بعد کرم کی خوبصورت وادی میں خونریزی کاایک مکروہ کھیل شروع کردیاگیا۔
کرم میں دراصل دوقبائل کے درمیان زمین کادیرینہ تنازعہ چلا آرہاہے بدقسمتی سے بوشہراورمالی خیل قبائل کاتعلق دومختلف فرقوں سے ہے۔ زمین کایہ دیرینہ تنازعہ جب بھی سراٹھاتاہے توشرپسندقوتیں اسے فرقہ واریت میں تبدیل کردیتی ہیں۔ حالیہ تنازعہ میں اب تک 10افرادجاں بحق جبکہ 50سے زائدزخمی ہوچکے ہیں۔ مقامی انتظامیہ تاحال دونوں قبائل یافرقوں کے درمیان فائربندی میں ناکام ہے۔
ڈپٹی کمشنرجاویداللہ محسودکااس حوالے سے کہناہے کہ دونوں قبائل کے درمیان فائربندی کیلئے کوششیں جاری ہیں اورگرینڈجرگہ کی مددسے فائربندی ممکن ہے۔ لیکن حالات کابنظر غائرجائزہ لینے پرواضح ہوجاتاہے کہ سول انتظامیہ امن قائم کرنے اورمعصوم وبے گناہ شہریوں کوتحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے بلکہ یہ اس خونریزی سے لاتعلق ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ کرم پولیس بھی مذہبی جنونیوں کے سامنے بے بس نظرآرہی ہے۔ زنیبیوں اوردیگرشدت پسندگروہوں کے دہشت گرد کرم میں دندناتے پھررہے ہیں اورحقیقت میں کرم کے معصوم وبے گناہ شہری ان شدت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں۔
کسی کی جان ومال عزت وآبروان شدت پسندوں سے محفوظ نہیں بے گوروکفن لاشیں اٹھانے کی اجازت نہیں ہے۔ ایسے میں صوبائی حکومت پربھاری ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ خونریزی کوروکنے کیلئے اپناکرداراداکرے مگرعلی امین گنڈاپورکی حکومت سیاسی معاملات اوروفاق کیساتھ مھاذآرائی میں اس قدرمصروف ہے کہ اسکے پاس کرم کی عوام کیلئے وقت ہی نہیں۔ وہ کبھی فوج کے خلاف اورکبھی وفاقی حکومت کے خلاف بیان بازی کی شغل فرماتے ہیں۔
ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کوکیایہ بیان زیب دیتاہے کہ وہ صوبے میں کسی کوآپریشن کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔ خودحکومت اوراسکی انتظامیہ اس قابل نہیں کہ عوام کوزندگی کاتحفظ ہی فراہم کرسکے دہشت گردوں، شرپسندوں اورفرقہ وارانہ فسادات سے نجات دلاسکے مگربیانات کی آندھی ہے کہ تھمنے کانام نہیں لے رہی۔
پہلے صرف وفاقی حکومت کے خلاف بیانات کاسلسلہ جاری تھااب حیرت انگیزطورپربیانات کی ان توپوں کارخ فوج کی جانب ہوچکاہے۔ یہ حرکات کسی طورذمہ دارانہ قرارنہیں دی جا سکتیں۔ کرم کے باشندے بجاطورپرصوبائی حکومت اوروزیراعلیٰ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ کرم آکرحالات کامشاہدہ کریں اوربروقت ودرست فیصلے کرکے نظرآنے والے اقدامات لیں تاکہ کرم کے معصوم شہریوں کوخونریزی سے نجات ملے اورمسلکی وفرقہ وارانہ دہشت گردوں کاقلع قمع ہو۔
صوبائی حکومت کاذمے داری کامظاہرہ کرتے ہوئے کرم کے عوام کاخیال کرناچاہئے۔ حکومت کاکام محض بیانات داغنانہیں ہوتابلکہ عوام کوجان ومال اورعزت وآبروکاتحفظ فراہم کرناحکومت کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ کرم کے عوام کومذہبی جنو نیوں کے حوالے کرنا حکومت کی ناکامی ہے۔ گنڈاپورحکومت کواپنی ذمہ داریوں کااحساس کرناہوگا۔