6 ستمبر کی یادیں ، ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ اور آج کا پاکستان
پاکستان کی عسکری اور دفاعی تاریخ میں 6 ستمبر کو کافی اہمیت حاصل ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر سال 6 ستمبر کو یوم دفاع کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ 6 ستمبر 1965 کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ میں پاکستان ایئر فورس نے جس انداز میں اپنی پیشہ ورانہ تربیت اور مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے بھارت کی فضائیہ اور زمینی فوج کو اندر ” دھکیلتے ” ہوئے انگیج کیے رکھا اس کی تفصیلات پر پاکستان کے علاوہ بھارت میں بھی بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے ۔ اس بات سے قطع نظر کہ دونوں ممالک کی سیاسی اور سرحدی کشیدگی کا پس منظر کیا ہے اور کس نے کس کو کب اور کیسے نیچے دکھایا ہے اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ پاکستان کی افواج نے بعض مقبول عام تجزیوں اور تاثر کے برعکس ہر جنگ میں اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور بالادستی کو نہ صرف برقرار اور قایم رکھا بلکہ نسبتاً چھوٹا ملک ہونے کے باوجود دنیا کی جنگی تاریخ میں متعدد اہم ریکارڈ بھی بنائے اور جب بھی دونوں متحارب ممالک کا تقابلی جائزہ کیا جاتا ہے 1971 کے سیاسی عوامل کے باوجود پاکستان کی مسلح افواج نے کھبی بھی خود کو کمزور ثابت نہیں کیا ۔ 1965 کی جنگ کے دوران پاکستانی افواج خصوصی طور پر اس کی ائیر فورس کی مجموعی کارکردگی نے بھارت کو اس کی طاقت اور جنگی مہارت کے تناظر میں انتہائی حد تک ” الرٹ ” کیا اور اسی الرٹنس ہی کے نتیجے میں بھارت نے 1971 کی جنگ کے دوران اپنی فوجی صلاحیت آزمانے کے برعکس پاکستان مخالف بنگالیوں کی انگیجمنٹ اور ” بغاوت” سے فایدہ اٹھانے کا راستہ اختیار کیا ۔
بھارتی جنگی ماہرین دور حاضر کے دوران بھی مقبول عام تاثر کے برعکس یہ اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان محدود وسائل کے باوجود عسکری لحاظ سے خطے میں اس کا سب سے بڑا حریف ہے اور اکثریتی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے دفاع میں کسی بھی حد تک جانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ اس بات سے قطع نظر کہ پاکستان کے اندر ایسے حلقوں کی کوئی کمی نہیں جن کا خیال ہے کہ پاکستان ایک کمزور ریاست ہے بھارتی ماہرین اور جنگی مورخین نے اپنی آراء اور تحریروں میں پاکستان کو کھبی ہلکا نہیں لیا ۔ مثال کے طور پر حال ہی میں جب بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد اور ان کی حکومت ، پارٹی کے خلاف بغاوت ہوئی تو بھارتی میڈیا اور سیاست دانوں نے اس پورے عمل کو پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کا ” کارنامہ” قرار دیتے ہوئے یہاں تک کہا کہ پاکستان نے بھارت اور عوامی لیگ سے 1971 کا بدلہ لے لیا ہے ۔
دوسری جانب ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے 5 ستمبر کو پاکستان کو درپیش بعض سیاسی اور عسکری چیلنجز پر ایک پریس کانفرنس کے دوران تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی فوج انتہائی منظم ادارے کے علاوہ ایک قومی فوج ہے اور یہ کہ اس کے ڈسپلن اور احتساب کے نظام پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی ۔ انہوں نے بعض سابق فوجی افسران کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت ہونے والے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ فوج نہ تو سیاست میں کوئی مداخلت کرتی ہے اور نا ہی یہ کسی پارٹی کی طرف دار یا مخالف ہے ۔ ان کے بقول جو بھی اس قومی ادارے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا اس کا محاسبہ کیا جائے گا ۔
پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف گزشتہ چند برسوں سے ایک منظم پروپیگنڈا جاری ہے اور ملکی دفاع کے زمہ دار اس ادارے پر مختلف نوعیت کے الزامات لگائے جاتے ہیں اس حقیقت کو پھر سے بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ پاکستانی عوام کی اکثریت اپنی فوج پر نہ صرف اعتماد کرتی ہے بلکہ عوام اس ادارے کو اپنے اور ملک کے مضبوط دفاع اور تحفظ کا ذریعہ بھی سمجھتے ہیں ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ماضی کی تلخیاں یاد کرنے اور الزامات لگانے کی بجائے درپیش چیلنجز کے تناظر پاکستان کی افواج سے متعلق کیے جانے والے پروپیگنڈے سے گریز کیا جائے اور پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کی آڑ میں اس اہم قومی ادارے کو غیر متنازعہ بنانے کا رویہ اختیار کیا جائے کیونکہ جس خطے میں پاکستان واقع ہے وہاں کے حالات اور چیلنجز کے تناظر میں پاکستان کو ایک مضبوط اور منظم فوج کی اشد ضرورت ہے ۔
عقیل یوسفزئی