افغانستان سے مذاکرات

افغانستان سے مذاکرات

گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے اپنے بیانات کا سلسلہ دراز کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ افغانستان سے مذاکرات کریں گے۔ انہوں نے پشاور میں ایک افغان سفارتکار سے ملاقات بھی کی جس کا کوئی قابل ذکر اعلامیہ سامنے نہ آسکا۔ اور اس سے کسی نتیجے کی توقع تو ویسے ہی دیوانے کا خواب ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اس سے قبل اسلام آباد جلسے میں خاصا متنازعہ خطاب کرکے لوٹے تھے۔

جلسے کے اختتام پر وہ اچانک آٹھ نو گھنٹوں کیلئے غائب ہوگئے اور منظرعام پر آنے کے بعد دو دن تک چپ کا روزہ رکھ لیا۔ البتہ دیگر پارٹی راہنماؤں نے یہ بیانیہ اپنایا کہ وہ سیکیورٹی اداروں بلکہ عرفان قادر کے مطابق ایجنسیوں سے مذاکرات کرنے گئے تھے۔ ان کی ‘‘گمشدگی’’ کے دوران ملک بھر میں افواہوں کا بازار گرم رہا۔ اس درفطنی کو خاصی قبولیت ملی کہ وہ ‘‘لاپتہ’’ ہوگئے ہیں یا انہیں گرفتار کرلیا گیا ہے۔

سنجیدہ حلقوں نے ان افواہوں کو اہمیت نہیں دی کیونکہ کسی وزیراعلیٰ کو نہ ہی لاپتہ کیا جاسکتا ہے اور شاید آئین اسے گرفتاری سے بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ان کی گرفتاری یا لاپتہ ہونے کے تاثر کو ان کے متنازعہ خطاب کے سبب پذیرائی ملی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں ملک کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کو غیر ضروری طور پر دھونس اور تضحیک کا نشانہ بنایا۔ صحافیوں کو برے القابات سے نوازا، خواتین کی دل آزاری کے مرتکب ہوئے اور ملکی سلامتی کے ضامن ادارے فوج پر بے جا تنقید کی۔

وزیراعلیٰ سمیت دیگر راہنماؤں کے بڑھک نما اور تیس مار خان قسم کے خطابات اس قابل تھے کہ ان تمام افراد کو گرفتار کیا جاتا اور انہیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا۔ وفاق میں ایسا ہوا بھی، ممبران قومی اسمبلی کی گرفتاری پر اسپیکر نے ایکشن لیا۔ اگرچہ اسپیکر کے جذبات اور اقدامات کو چند حلقوں میں سراہا گیا مگر سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیا قومی اسمبلی کا ممبر قانون سے بالاتر کوئی مخلوق ہے؟

اگر ہاں تو اس لئے ممبر بننے کیلئے کروڑوں بلکہ اب تو اربوں روپے خرچ کرنے کے اسکینڈلز سامنے آتے ہیں۔ ممبر قومی اسمبلی اگر سڑک پر کھڑے ہو کر لوگوں کو ماں بہن کی گالیوں سے نوازے اور جا کر قومی اسمبلی میں پناہ گزین ہو تو کیا اسے ہاتھ نہیں لگایا جائے گا؟ یہ ملک کی قومی اسمبلی ہے یا مفروروں کی پناہ گاہ؟

بہرحال دو دن چپ کا روزہ رکھنے کے بعد انہوں نے اسے افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے بیان پر توڑا۔ افغانستان کے ساتھ مذاکرات اس ملک کے ہر شہری کی خواہش ہے۔ برادر ملک کے ساتھ پاکستان کے مسائل ہیں جو دوطرفہ سفارتی رابطوں کے ذریعے حل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ جو ریاست پاکستان کر رہی ہے اور کسی بھی ملک کے ساتھ مذاکرات یا تعلقات وفاقی معاملہ ہے۔ صوبہ تو زیادہ سے زیادہ رابطہ یا مذاکرات کرکے وفاق کو سفارشات پیش کر سکتا ہے، اسے منظور یا مسترد کرنا وفاق کی صوابدید ہے۔

اگر علی امین گنڈاپور آٹھ نو گھنٹے تک سیکیورٹی اداروں یا ایجنسیوں سے امن و امان کے حوالے سے رات بھر جاگ کر مذاکرات کرتے رہے تو کیا ان میں یہ طے پایا کہ وہ افغانستان سے مذاکرات کا اعلان کریں گے اور قونصل جنرل سے ملاقات کریں گے؟ اگر ان آٹھ نو گھنٹے میں یہی طے پا چکا ہے تو اس میں اعتراض والی کوئی بات نہیں۔

مگر علی امین گنڈاپور نے مذاکرات کا اعلان اور ملاقات ایسے ماحول میں کئے جیسے وہ آٹھ نو گھنٹے والی ملاقات کے ردعمل میں کئے جا رہے ہیں۔ آٹھ نو گھنٹے قومی سلامتی کے اداروں سے اسی موضوع پر مذاکرات کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا کہ شب بھر کے مذاکرات سے کیا نتیجہ اخذ کیا گیا اور کیا فیصلے کئے گئے؟ بلکہ انہوں نے دو دن خاموشی کے بعد ایک مرتبہ پھر دھمکی آمیز لہجہ اپنایا۔

ان کے قائد اور جرگہ مشیر اسد قیصر نے تو ان کے ساتھ روارکھے جانے والے روئیے کی مذمت بھی کر ڈالی مگر ان کی جانب سے کسی برے روئیے کی شکایت نہیں کی گئی بلکہ ان کی تان افغانستان سے مذاکرات پر ٹوٹی۔ افغانستان سے مذاکرات صوبائی سطح پر محمود خان حکومت بھی کر چکی ہے جس کے نتیجے میں صوبہ ایک بار پھر دہشت گردی کا شکار ہوا۔

موجودہ حکومت کے پاس ایسی کیا گیدڑ سنگھی ہے جس سے مسائل حل ہو جائیں گے اور صوبے کا سلگتا ہوا مسئلہ یعنی دہشت گردی ختم ہو جائے گی اور ہر طرف امن کا دور دورہ ہوگا۔ اگر وزیراعلیٰ ایک بار پھر اسی طرح کے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں جو ان کے پیشرو محمود خان اور ان کی کابینہ کے متحرک وزیر بیرسٹر سیف کر چکے ہیں تو ان مذاکرات سے صوبے کا یہ مسئلہ حل ہونے کی بجائے بڑھ چکا ہے۔

پہلے اگر دہشت گرد اکا دکا کارروائی کرتے تھے تو ان کی حکومت میں آنے کے بعد اور محمود خان حکومت میں یہ کارروائیاں تیز ہو چکی ہیں۔ وزیراعلیٰ کے اقدامات اور حرکات و سکنات سے ظاہر ہو رہا ہے جیسے وہ شدید فرسٹریشن میں ہوں اور ان کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ ملک سے الگ ہونے کا اعلان فرماتے۔

افغانستان کے ساتھ مسئلہ اگر وہ اپنے طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں یا ان کے پاس کوئی قابل عمل فارمولا موجود ہے تو انہیں یہ فارمولا نہ صرف آٹھ نو گھنٹے طویل ملاقات میں رکھ دینا چاہئے تھا بلکہ ذمہ دار افراد کو اپنے مؤقف پر قائل کر لیتے۔ یا اگر ان کے پیش کردہ فارمولا کو مسترد کیا جا چکا ہے تو وہ یہ فارمولا عوام کے سامنے رکھتے۔

افغانستان سے مسائل اگر علی امین گنڈاپور حل کرسکتے ہیں یا ان کے مذاکرات اتنے بابرکت ہیں کہ صوبے کو دہشت گردی سے نجات مل سکتی ہے تو پھر دیر کس بات کی، بسم اللہ کریں اور آگے بڑھیں۔ اگر ان کا فارمولا قابل عمل اور قابل قبول ہونے کے باوجود ریاست یا سیکیورٹی ادارے قبول نہیں کرتے تو یہ سب پر عیاں ہو جائے گا اور قوم کو یہ جاننے کا موقع مل جائے گا کہ صوبے میں امن کس کی خواہش ہے اور کون یہاں لگی آگ کو پھونکیں مار رہا ہے؟

وزیراعلیٰ کے حالیہ اقدامات اور حرکات و سکنات کسی صورت دانشمندانہ نہیں لگتے اور یہ ایک وزیر اعلیٰ کے شایان شان نہیں۔ اسلام آباد جلسے میں کی گئی تقریر کی عمران خان نے جیل سے پذیرائی کی جبکہ ایک دن بعد صحافیوں کے حوالے سے ان کی اول فول کو مسترد کیا۔ بانی پی ٹی آئی چونکہ جان چکے ہیں کہ ان کی جلد گلو خلاصی ممکن نہیں اس لئے وہ پارٹی میں سے کسی کراؤڈ فلر کی تلاش میں ہیں۔ مگر بدقسمتی سے جو بھی کراؤڈ فلر بننے کی سعی کرتا ہے، وہ الٹا پڑ جاتا ہے۔

کسی فرد میں جب بڑا لیڈر بننے کی صلاحیت نہ ہو تو اسے زبردستی با صلاحیت نہیں بنایا جاسکتا۔ عمران خان کے غلط بیانی پر مبنی بیانئے میں کوئی جان نہیں اس لئے اس کی جگہ بھی کسی دوسرے کیلئے لینا ممکن نہیں۔ یہ پارٹی الٹی سیدھی حرکات سے خاصا نقصان اٹھا چکی ہے۔ اگر اب بھی ہوشمندی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تو کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرنا مشکل تر ہو جائے گا۔

افغانستان سے مذاکرات جس کا کام اسی کو ساجھے۔ صوبائی حکومت کو عوام کے مسائل پر توجہ دینی چاہئے جو اسے تیسری مرتبہ اقتدار سونپ کر مایوسی کی دلدل میں دھنس رہے ہیں۔

وصال محمد خان

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket