وصال محمد خان
وطن عزیز میں ہمہ اقسام کی سیاسی جماعتیں موجود ہیں اور وہ اپنی سیاست چمکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں مگر جب سے پی ٹی آئی کو عوامی پذیرائی ملی ہے اور یہ جماعت ملکی سیاست میں متحرک ہوئی ہے تب سے پاکستانی سیاست یکسر تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔ پہلے سیاسی جماعتیں اگر ایک جانب لسانی، مذہبی، فرقہ پرستی اور قوم پرستی کے نام پر سیاست میں سرگرم تھیں تو دوسری جانب بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان کارکردگی کا مقابلہ بھی ہوتا تھا۔ مگر پی ٹی آئی کی سیاست میں پذیرائی سے اب کارکردگی ثانوی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ بلکہ اوٹ پٹانگ نعروں، الٹے سیدھے دعوؤں، لغو الزامات اور ناقابل عمل وعدوں کو سیاست کا نام دیا گیا ہے۔
شخصیت پرستی اگرچہ پہلے بھی پاکستانی سیاست کا لازمی حصہ رہی ہے۔ ہر سیاسی جماعت ایک فرد یا خاندان کے گرد گھومتی آ رہی ہے مگر پی ٹی آئی نامی سیاسی جماعت شخصیت پرستی میں بھی تمام سیاسی جماعتوں پر بازی لے گئی ہے۔ یہ جماعت اپنے بانی کو دنیا کی عظیم ترین ہستی اور ماورائی مخلوق کا درجہ دیتی ہے اور اس رو میں انہیں دنیا کے ہر بڑے اعزاز کا حقدار بھی سمجھتی ہے۔
امریکہ میں صدارتی انتخاب کے دوران اس پارٹی کے پیڈ سوشل میڈیا ورکرز نے جو ٹرینڈز چلائے ان کے مطابق صدر ٹرمپ کی کامیابی عمران خان کی مرہون منت تھی۔ برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا انتخاب ہو تو عمران خان کو چانسلر شپ کیلئے خود ساختہ طور پر امیدوار بنا لیا گیا بلکہ کامیاب بھی قرار دیدیا گیا۔ حالانکہ اس اہم عہدے کی اہلیت کیلئے جو معیار مقرر ہے بانی پی ٹی آئی اس سے کوسوں دور ہیں۔
حال ہی میں نوبل پرائز کے حوالے سے ایک شوشہ چھوڑا گیا کہ امن کا نوبل پرائز بانی پی ٹی آئی کو ملنے والا ہے اور اس سلسلے کی اتنی تشہیر کی گئی کہ نوبل پرائز کمیٹی کے بغیر انہیں اس اعزاز کیلئے نہ صرف نامزد کیا گیا بلکہ نوبل پرائز دلوا بھی دیا گیا۔ حالانکہ نوبل پرائز کی نامزدگی کیلئے انتظامیہ نے جو معیار مقرر کر رکھا ہے عمران خان اس پر پورے نہیں اترتے ان کے پاس نوبل پرائز کی نامزدگی کیلئے بھی اہلیت موجود نہیں مگر یہاں یہ تاثر قائم کرنے کی ناکام اور بھونڈی کوشش کی گئی جیسے نوبل پرائز انسٹی ٹیوٹ اور کمیٹی نے یہ اعزاز عمران خان کی قدموں میں ڈھیر کر دیا ہو۔
حالانکہ ایسا کوئی معاملہ نوبل انتظامیہ کے زیر غور نہیں تھا بلکہ یہ در فطنی ایک تو ناروے سے چھوڑی گئی جو مبالغہ آرائی اور ایک غیر حقیقت پسندانہ شوشے کے سوا کچھ نہیں۔ دوسرے بیرون ملک بیٹھے ہوئے تحریک انصاف کے کچھ ورکرز جن کی روزی روٹی بانی پی ٹی آئی کی مدح سرائی سے وابستہ ہے ان لوگوں نے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جیسے نوبل پرائز ملنے کا فیصلہ ہو چکا ہو بس رسمی کارروائی کا انتظار ہو۔ پیسے کے ان پجاریوں کو اس بات کا احساس نہیں مگر ان حرکتوں سے بیرونی دنیا میں پاکستان کا نام بدنام ہوتا ہے۔
عمران خان نے نہ ہی تو اپنے دورِ حکومت میں اور نہ ہی اپوزیشن کے دوران ایسا کوئی کارنامہ انجام دیا ہے جس سے متاثر ہو کر انہیں نوبل جیسے بڑے اور تاریخی انعام سے نوازا جائے۔ دنیا میں اب تک جن افراد کو نوبل پرائز کا مستحق سمجھا گیا ہے انہوں نے ملک و قوم یا دکھی انسانیت کی کوئی ایسی خدمت انجام دی ہے جو دوسروں کیلئے مثال ہے نوبل انعام یافتہ جتنے بھی لوگ ہیں انہوں نے اپنے اپنے شعبہ جات میں ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں بلکہ انسانیت کی خدمت کیلئے اپنی زندگی تیاگ دی ہے تب جا کر کہیں انہیں اس بڑے انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔
یہاں عمران خان نے اپنی دورِ حکومت میں ملک پر قرضوں کا بوجھ دوگنا کر دیا ہے، ایک صوبے میں گیارہ سال سے ان کے ایما اور آشیرباد سے کرپشن کا بازار گرم ہے، دہشت گردی کی جو جنگ پاکستان لڑ رہا ہے اس میں عمران خان کا میلان مرنے والے فوجی جوانوں، معصوم اور پرامن شہریوں کی بجائے مارنے والے دہشتگردوں کی جانب زیادہ رہا۔ بلکہ انہوں نے اپنی حکومت کے دوران دہشت گردوں کو لا کر یہاں آباد کیا جو اب تخریبی کارروائیوں اور معصوم و بیگناہ شہریوں کی قتل و غارتگری میں ملوث ہو کر خونریزی کا سبب بن رہے ہیں۔
پاکستان میں نوبل انعام کے حقدار وہ لوگ ہونے چاہئیں جنہوں نے دہشت گردی کیخلاف ملک و قوم کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ نوبل یا کسی بھی اعزاز و انعام کے حقدار وہ لوگ ہیں جنہوں نے دہشتگردوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر انہیں للکارا اور اپنی جانیں قربان کر دیں۔
حال ہی میں ریاست پاکستان اور فوج نے شدت پسند خوارج کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی کا اعادہ کرتے ہوئے کسی بھی دہشت گرد کیساتھ مذاکرات کا باب بند کر دیا ہے۔ دہشت گرد بے گناہ اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ نجی، سرکاری اور فوجی تنصیبات و املاک پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں بھی پی ٹی آئی اور اسکے بانی مذاکرات کا راگ الاپ رہے ہیں اور اس مقصد کیلئے اپنی خدمات بھی پیش کر رہے ہیں۔ نہ ہی یہ مذاکرات کی کوئی اہلیت رکھتے ہیں اور نہ ہی فریق دوم کو معاہدوں کا پاس رکھنے کی عادت ہے بلکہ مذاکرات کا بیانیہ خوارج کو حق بجانب ثابت کرنے اور ان کی جانب سے کی گئی خونریزی سے توجہ ہٹانی کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔
نوبل پرائز انسٹی ٹیوٹ اور کمیٹی اتنے لاعلم تو نہیں ہونگے کہ وہ شدت پسندوں کے حامی کو اس بڑے اعزاز سے نوازے یا اس کیلئے نامزد کرے آکسفورڈ یونیورسٹی چانسلر شپ اور صدر ٹرمپ کے انتخاب پر اثر انداز ہونے جیسے بے بنیاد دعوؤں اور شوشوں کے بعد نوبل انعام کا غبارہ بھی خالی ہو چکا ہے۔ اب کوئی نیا شوشہ تلاش کیا جائیگا۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں اِن رہنے کیلئے کوئی نیا حربہ آزمایا جائیگا۔ عین ممکن ہے کہ حج کے ایام میں سوشل میڈیا پر یہ ٹرینڈ دیکھنے کو ملے کہ عمران خان کو خطبہء حج دینے کی دعوت دی گئی ہے۔
مگر مقام شکر ہے کہ قوم اب ان جھوٹے دعوؤں، بے بنیاد پروپیگنڈوں اور شوشہ بازی کو سمجھ چکی ہے اور اس سے عاجز بھی آ چکی ہے۔ پے در پے غلط بیانیوں سے اس جماعت کا پول کھل رہا ہے کہ اس کے پاس ملک و قوم کی بھلائی یا فلاح و بہبود کا کوئی منصوبہ موجود نہیں۔ عام آدمی جان چکا ہے کہ نااہلیوں کی تاریخ رقم کرنے والے سیاسی، معاشی، انتظامی، آئینی اور قانونی تمام محاذوں پر ناکامی سے دوچار ہو چکے ہیں۔ خفت مٹانے کیلئے روز نت نئے شوشے چھوڑے جاتے ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں۔