وصال محمدخان
دولت،طاقت اوراقتدارکی حصول کیلئے ماراماری کاسلسلہ ازل سے جاری ہے اورتاابدجاری رہے گا۔حضرت انسان جب سیاست اور جمہوریت سے نابلدتھاتب بھی وہ اقتدارکیلئے گردنیں کاٹتاتھااوراب جبکہ یہ متمدن ہوچکاہے اوردعویٰ کیاجاتاہے کہ موجودہ دورکاانسان شائدتاریخ کاسب سے ترقی یافتہ مخلوق ہے۔اب انسان مشرق میں بیٹھ کرمغرب میں اپنے دشمن کوباآسانی نشانہ بناسکتاہے برسوں کاسفر گھنٹوں میں طے کرلیتاہے سمندرکی تہہ اورخلاکی وسعتوں کوتسخیرکررہاہے مگراقتدارکی حصول کیلئے اوچھے ہتھکنڈوں کاسلسلہ اب بھی پوری آب وتاب کیساتھ جاری ہے۔سیاسی اورجمہوری دورمیں قدم رکھنے کے بعدانتقال اقتدارکاکٹھن مرحلہ قدرے آسان ہوامگراقتدارکی لالچ اورحرص نے انسان کوہردورمیں رسوا کیااوراس سے مضرحرکات سرزدہوئیں جس سے جمہوری نظام بھی تنقیدکی زدمیں آیا۔وطن عزیز میں نظام کوکوسنے کارواج عام ہے یہاں بطورفیشن نظام کودوچاربے نقط سنائی جاتی ہیں حالانکہ جونظام یہاں رائج ہے اسی ملتے جلتے یااسی طرز کے نظاموں سے دنیاکے بیشترممالک اونچامقام حاصل کرچکے ہیں۔نظام کوئی بھی ہواسے چلانے والے افراداہم ہوتے ہیں بھارتی پائلٹس نے دنیاکے جدیدترین فائٹرجیٹ کورسواکیاکیونکہ وہ اسے چلانے کی اہلیت سے عاری تھے۔موجودہ پارلیمانی نظام خاصی جدوجہد کے بعدوجودمیں آیاہے چندچھوٹی موٹی خامیوں سے قطع نظراس نظام سے ملک چلائے جاسکتے ہیں بشرطیکہ اسے چلانے والے افرادمخلص ہوں اورانکی اہلیت کالیول بھارتی پائلٹس سے اونچاہو۔یہاں نظام کومحض اقتدارکی حصول کیلئے استعمال کیاجاتاہے اوربعدمیں اس سے کھلواڑ کیاجاتاہے ایسے میں نظام کاتیاپانچہ توہوناہی ہے۔سپریم کورٹ کے ججزجھکاؤرکھنے لگے جس سے نظام نے مفلوج ہوناہی تھا اعلیٰ عدلیہ کے جج جب اقتدارکی ایوانوں میں داخل ہوجائیں یااقتدارکی کھینچاتانی میں اپناوزن کسی پلڑے میں ڈال دیں تونظام ناکام ہی ہوگا اس سوارخ کوبندکرنے کیلئے آئین میں ترامیم کی گئیں جس پربہت سے حلقے معترض ہیں کہ اس سے ملک کی سب سے بڑی عدالت کمزور ہوئی ہے اسکے خلاف سپریم کورٹ میں فل کورٹ کی استدعاکی جارہی ہے جس کاواضح مقصدہے کہ ایک بارپھرعدلیہ اورپارلیمان یا انتظامیہ کو لڑانے کی سازش ہورہی ہے۔جب آئین میں ترمیم کرناحکومت اورپارلیمان کاآئینی حق ہے تویہ حق استعمال کرکے ترامیم کی گئیں ہیں اب اس پرسیاست چمکانااوریہ تاثرابھارناکہ یہ ترامیم بنیادی انسانی حقوق اورنجانے کس کس کی خلاف ورزی ہے اسلئے انہیں کالعدم قرار دیا جائے۔آئین میں دئے گئے طریقہ کارکے مطابق کی گئی ترامیم اگرفل کورٹ کالعدم قراردیتی ہے اس کامقصدیہی ہوگاکہ منتخب پارلیمنٹ نہیں عدلیہ سپریم ہے مگردوسری جانب عدلیہ کے بعض ججزآئین میں ترمیم بلکہ اس میں اپنی جانب سے اضافہ بھی فرمارہے ہیں۔ اسی طرح سیاستدانوں کوحکومت ملتی ہے تووہ کرپشن اوراقرباپروری کابازارگرم کردیتے ہیں افسرشاہی الگ سے ملک اورنظام کیساتھ کھلواڑمیں مصرو ف ہے۔جب کوئی نظام اس قدربے دردی سے نوچاکھسوٹاجارہاہوتواس نظام نے ڈیلیورکیاکرناہے اوراس سے کسی ملک یاقوم نے ترقی کیاکرنی ہے؟آپ دنیاکی جدیدترین اورمہنگی کارلے آئیں مگراسکے انجن آئل میں تھوڑی سی ریت ڈال دے کیایہ گاڑی چل سکے گی؟ بالکل نہیں بلکہ تھوڑے ہی سفرمیں اس کاانجن جام ہوجائیگااورریڈی ایٹرسے دھواں اٹھناشروع ہوجائیگا۔بالکل یہی عمل ہمارے ہاں پارلیما نی نظام حکومت کیساتھ روارکھاجارہاہے۔سیاستدان عوام سے ووٹ لیکرنظام حکومت میں گھس جاتے ہیں اوراسے اندرسے کھوکھلاکرنے میں جت جاتے ہیں،جج موٹی موٹی کتابیں پڑھ کراوراعلیٰ تعلیم حاصل کرکے عہدے پرمتمکن ہوجاتے ہیں اور پسند ناپسندکاشکارہوکرنظام کے انجن میں مٹی اورریت بھرتے ہیں اسی طرح بیوروکریسی جائزوناجائزطریقے اپناکرعہدے پرپہنچ جاتے ہیں اورنظام میں گھس کراسے دیمک کی طرح چاٹناشروع کردیتے ہیں۔جب کوئی نظام چاروں طرف سے نوچاجارہاہوتواس نے ڈیلیورکیاکرناہے اورمسائل کیاحل کرنے ہیں؟اسلئے اچھابھلانظام ناکارہ اورمفلوج کیاجاچکاہے بلکہ اسے طاقتوروں کی باندی بنا دیا گیاہے جواس سے اپنی مرضی کے مطابق کھیلتے رہتے ہیں۔جب تک ہم بطورقوم اپنے روئیوں پرنظرثانی نہیں کرتے،جب تک ہم اپناقبلہ درست نہیں کرلیتے،جب تک ہم اس ملک کومفتوح ملک کی بجائے اپناملک اوراپنی ملکیت نہیں سمجھ لیتے،جب تک ججزسیاسی جھکاؤترک نہیں کرتے،جب تک بیوروکریسی نظام کو موم کی ناک بناکراسے توڑنے مروڑنے سے بازنہیں آتی اورجب تک سیاستدان خودکوملک لوٹنے کے لائسنس عطاکرناترک نہیں کردیتے تب تک ہم نظام کوکوستے رہیں گے نت نئے نظام اپنانے کے بارے میں غوروفکرکرتے رہیں گے۔ کسی کنویں میں اگرکتاگرکرمرگیاہے تو چاہے دس ہزارڈول پانی نکالاجائے جب تک کتے کی لاش باہرنہیں نکالی جاتی تب تک پانی نہ ہی پاک ہوگااورنہ ہی استعمال کے قابل ہو گا ۔ وطن عزیزمیں پارلیمانی نظام حکومت کورائج ہوئے نصف صدی گزرچکی ہے جس میں دوعشرے آمریت کی نذرہوچکے ہیں باقی کے عرصے میں نظام نے اچھاخاصاڈیلیورکیاہے اتنے مختصرعرصے میں کسی ملک نے اتنے اہداف حاصل نہیں کئے۔مگرآئے روزنظام کوبدلنے کے نعر ے سننے کوملتے ہیں۔حالانکہ جولوگ نظام بدلنے کے دعوے کرتے ہیں اور نعرے لگاتے ہیں انہی لوگوں نے اس نظام کابیڑاغرق کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی انہی لوگوں کودنیاکاکوئی بھی نظام دیاجائے انکے پاس چونکہ عقل وفہم،دانش وتدبراورمعاملہ فہمی کی صلاحیت موجود نہیں۔نظام کی تباہی کے ذمہ داربطورفیشن ”نظام بدلیں گے“کے دعوے کرتے ہیں۔نظام یہی بہترین ہے ہمارے ہاں عوام،سیاستدانوں،بیوروکریسی اورججزکو اپنے روئیوں پرنظرثانی کرنیکی ضرورت ہے اگرتمام افرادخلوص کامظاہرہ کریں،ہرفرداپنی ذمہ داری خلوص سے انجام دے،لوٹ کھسوٹ اورپسندوناپسند سے توبہ تائب ہوجائیں تواسی نظام میں ڈیلیور کرنے کی صلاحیت موجودہے۔بس اسے چلانے کیلئے نااہلوں کی نہیں اہل قابل،مخلص اورمحب وطن افرادکی ضرورت ہے اگریہ افراد میسر آجائیں توجس طرح ہم نے دنیاکی ایک بڑی طاقت کوچندمنٹوں میں زیرکیااسی طرح اس ملک کوبھی اونچامقام دلا سکتے ہیں۔ نظام نہیں خودکوبدلناہوگا۔
