پاکستان کرکٹ ٹیم چیمپیئنزٹرافی میں مسلسل دوسرامیچ بھی ہارچکی ہے۔ اس سے قبل کراچی میں کھیلے گئے ٹرافی کے افتتاحی میچ میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کو باآسانی شکست دی تھی۔ بدقسمتی سے اس میچ میں بھی پاکستان کرکٹ ٹیم نے محض 242 رنز اسکور کئے تھے جبکہ دوسرے میچ میں بھارت کے خلاف دبئی کے مقام پر کھیلے گئے میچ میں بھی 241 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔ مسلسل دو میچوں میں 240 رنز اسکور کرنے کا یہی مطلب لیا جا سکتا ہے کہ پاکستانی ٹیم 50 اوورز کے کھیل میں اتنے ہی رنز بنانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ حالانکہ جدید کرکٹ میں اس فارمیٹ کے کھیل میں 240 رنز کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اب تو ٹیمیں ساڑھے تین سو رنز بناتی ہیں بلکہ اسی ماہ دو میچز میں 350 رنز بھی محفوظ ٹوٹل نہیں رہا۔
تین ملکی ٹورنامنٹ میں جنوبی افریقہ نے پاکستان کے خلاف ساڑھے تین سو رنز اسکور کئے جسے پاکستان جیسی ٹیم کے لیے مشکل ہدف تصور کیا جا رہا تھا مگر پاکستانی ٹیم نے محمد رضوان اور سلمان آغا کی عمدہ بلے بازی کے سبب یہ ہدف باآسانی عبور کیا۔ اسی طرح لاہور میں برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان چیمپیئنزٹرافی کے میچ میں برطانیہ نے آسٹریلیا کو 352 رنز کا ہدف دیا جسے آسٹریلیا نے باآسانی حاصل کر لیا۔ جس سے یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ ون ڈے کرکٹ میں ساڑھے تین سو رنز بھی محفوظ اسکور نہیں رہا۔ پاکستانی ٹیم ابھی تک 90 کی دہائی والی کرکٹ کھیل رہی ہے جب دو سو رنز محفوظ اسکور تصور ہوتا تھا۔ اب تو ٹی ٹوینٹی کرکٹ میں اڑھائی سو رنز اسکور ہوتے ہیں جبکہ ون ڈے میں بسا اوقات 400 تک رنز بن جاتے ہیں۔
چیمپیئنزٹرافی میں ٹیم نے جو کارکردگی دکھانی تھی وہ دکھا چکی ہے، اب مستقبل کے لیے نئی صف بندی اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پاکستانی ٹیم تینوں فارمیٹس میں اکثر و بیشتر بیٹنگ کی خراب کارکردگی کے سبب میچ ہار جاتی ہے۔ اگرچہ چیمپیئنزٹرافی میں تینوں شعبے شکست کے ذمہ دار ہیں کیونکہ بھارت اور نیوزی لینڈ کے خلاف نہ بیٹنگ چل سکی، نہ باؤلنگ نے کوئی کمال دکھایا اور نہ ہی فیلڈنگ نے اپنی ذمہ داریاں پوری کیں۔ بھارت کے خلاف شکست میں تین ڈراپ کیچز کی کارفرمائی بھی شامل حال رہی۔
اس ٹورنامنٹ میں اگرچہ فاسٹ باؤلنگ سے آؤٹ اسٹینڈنگ کارکردگی کی توقع نہیں تھی کیونکہ یہاں کے بیشتر پچز بیٹنگ کے لیے سازگار ہوتی ہیں۔ تیز باؤلرز بیچارے زور لگا لگا کر تھک جاتے ہیں مگر وکٹ ہاتھ نہیں آتی جبکہ بیٹرز بڑے بڑے شاٹس کھیل کر رنز کے انبار لگا دیتے ہیں۔ ان حالات میں پاکستانی باؤلرز کو خراب کارکردگی پر زیادہ قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا مگر بیٹرز کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اور انگشت نمائی قدرتی امر ہے کیونکہ یہ ان کے اپنے پچز ہیں۔ یہ کھلاڑی انہی پچز پر پی ایس ایل سمیت ڈومیسٹک کرکٹ میں کھیلتے رہتے ہیں، انہیں تو پچز کا مزاج سمجھنے میں مشکل نہیں ہونی چاہیے مگر بدقسمتی سے نامور اور نمایاں کھلاڑی اپنی وکٹیں سنبھال نہیں پا رہے۔
بابر اعظم تجربہ کار بیٹسمین ہیں مگر حالیہ ٹورنامنٹ میں ان کی کارکردگی خلاف توقع خراب رہی۔ شائقین کرکٹ اور ان کے پرستاروں کو امید تھی کہ ان آسان پچز پر وہ اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرکے نت نئے ریکارڈز قائم کریں گے۔ دنیا کے تمام بڑے بیٹسمین ہوم گراؤنڈز پر ہی ریکارڈز قائم کرتے ہیں، بیرون ملک بہترین کارکردگی کبھی کبھار سامنے آتی ہے مگر بابر اعظم جیسے کھلاڑی نے یا تو دل سے رنز بنانے کی کوشش نہیں کی یا پھر انہیں یقین ہے کہ وہ ٹیم کے مستقل رکن ہیں اس لیے کسی کارکردگی کی ضرورت نہیں۔ رضوان اور فخر زمان بھی توقع کے مطابق رنز نہ بنا سکے۔
دیگر کھلاڑیوں میں سعود شکیل، امام الحق اور سلمان آغا اچھا خاصا تجربہ رکھنے کے باوجود اعتماد پر پورا نہ اترنے میں ناکام رہے۔ طیب طاہر کو بار بار مواقع دیے گئے مگر یا تو وہ ان سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے یا پھر سلیکشن کمیٹی اور کوچنگ اسٹاف پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے طیب طاہر کی خامیوں پر کیا کام کیا؟ ان کی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوئی کوشش کیوں نہ کی گئی؟ یا جو کھلاڑی اپنی خامیوں پر قابو پانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کرتے انہیں اتنے اہم ٹورنامنٹ میں کیوں کر مسلسل مواقع دیے گئے؟ اسی طرح سلمان آغا، امام الحق اور خوشدل شاہ بھی دستیاب مواقع سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔
فیلڈنگ کا معیار بھی انتہائی ناقص رہا۔ جدید کرکٹ میں “کیچز جتوائے، میچز جتوائے” کے فارمولے پر عمل کیا جاتا ہے۔ دیگر ٹیموں کے کھلاڑی کیچ کے آدھے مواقع کو بھی ضائع نہیں ہونے دیتے جبکہ ہمارے کھلاڑیوں کے ہاتھ میں آئی ہوئی گیندیں چھوٹ جاتی ہیں۔ سست اور ناقص فیلڈنگ کے سبب چالیس پچاس رنز اضافی بن جاتے ہیں اور کسی ہارڈ ہٹر کو چانس ملنے پر وہ باؤلرز کی بھرکس نکال دیتا ہے۔
مجموعی طور پر جاری بڑے اور اہم ٹورنامنٹ میں تینوں شعبے ناکام رہے۔ اس بری کارکردگی پر تبصروں کا سلسلہ تادیر جاری رہے گا مگر کوچنگ اسٹاف کی کارکردگی پر بھی سوال تو بنتے ہیں۔ سابق عظیم کھلاڑی ٹی وی اسکرینوں پر تبصروں کے دوران ارسطو اور افلاطون بنے رہتے ہیں مگر جب انہیں کوئی ذمہ داری سونپی جاتی ہے تو نہ صرف چپ لگ جاتی ہے بلکہ ٹیم کی کارکردگی روبہ زوال اور تنزلی کا شکار ہو جاتی ہے۔
لوکل کوچز کی بدترین کارکردگی کے پیش نظر غیر ملکی کوچ کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ ملکی کوچز میں ٹیم کی کارکردگی نکھارنے کی صلاحیت موجود نہیں، یہ تجربات بارہا ہو چکے ہیں۔ پاکستانی ٹیم نے بسا اوقات غیر ملکی کوچز کی نگرانی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اس لیے ٹیم کے لیے مستقل غیر ملکی کوچ کا بندوبست ہونا چاہیے جسے سال دو سال نہیں کم از کم پانچ سال کے لیے تعینات کیا جائے۔ اس طرح نئے بیٹسمین اور باؤلرز بھی سامنے لانے کی ضرورت ہے۔
سینئر کھلاڑی اسٹارز بن چکے ہیں، ان کی توجہ کھیل سے زیادہ اشتہارات پر ہے۔ حالیہ کارکردگی سے شائقین کرکٹ کے دل ٹوٹ چکے ہیں اور وہ مایوسی کا شکار ہیں۔ دیکھتے ہیں بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں ٹیم کیا گل کھلاتی ہے۔
وصال محمد خان