Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, September 6, 2025

پشتون بیلٹ کو درپیش سنگین مسائل

عقیل یوسفزئی
یہ بات قابل تشویش ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مختلف علاقوں پر مشتمل پشتون بیلٹ کو بیک وقت متعدد ایسے مسایل اور چیلنجز کا سامنا ہے جن کو حل کئے بغیر عوام کے بنیادی حقوق اور سماجی ، معاشی مشکلات کے خاتمے کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ سب سے بڑا مسئلہ اس پورے بیلٹ میں دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے قیام کا ہے ۔ یہ مسئلہ کئی دہائیوں سے پوری شدت کے ساتھ مختلف شکلوں میں چلا آرہا ہے اور بے شمار دو طرفہ کارروائیوں کے باوجود خیبرپختونخوا ، بلوچستان اور افغانستان کے سرحدی صوبوں میں امن قائم نہیں ہو پارہا بلکہ وقتاً فوقتاً دہشت گردی بوجوہ بڑھتی دکھائی دی جس نے نہ صرف انفراسٹرکچر اور گورننس کے ایشوز میں پیچیدگیاں اور کمزوریاں پیدا کیں بلکہ ہزاروں افراد کی جانیں بھی چلی گئیں ۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے پشتون علاقے ہی اس تمام صورتحال سے بری طرح متاثر ہوتے آرہے ہیں ۔کالعدم ٹی ٹی پی نے گزشتہ روز ماہ اگست کے دوران خیبرپختونخوا کے اندر ہونے والے حملوں کی جو تفصیلات جاری کی ہیں ان کے مطابق صوبے کے تقریباً 24 اضلاع میں حملے کیے گئے ہیں جن میں رپورٹ کے دعوے کے مطابق 800 سے زائد افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔
خیبرپختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس ذوالفقار حمید نے ایک خصوصی انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ اگست 2024 کے مقابلے میں اگست 2025 تک کے عرصے کے دوران خیبرپختونخوا میں ہونے والی دہشت گردی کی شرح میں 15 فی صد کمی واقع ہوئی ہے ۔ ان کے بقول رواں برس نہ صرف یہ کہ پولیس نے تقریباً 600 دہشت گردوں کو نشانہ بنایا بلکہ سینکڑوں کو زخمی اور گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا ہے جن میں اہم شخصیات کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد بھی شامل ہیں ۔ ان کے بقول قبائلی علاقوں میں پولیس کی انفراسٹرکچر پر کوئی توجہ نہیں دی گئی تھی تاہم اب جہاں ایک طرف اس مسئلے کے حل پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں بلکہ جدید ہتھیاروں کی فراہمی اور ریکروٹنگ پر بھی خصوصی توجہ دی جارہی ہے ۔
اگر چہ خیبرپختونخوا میں پاک فوج امن کے قیام میں بنیادی کردار ادا کرتی آرہی ہے اور ساتھ میں قدرتی آفات سے نمٹنے میں بھی سیکورٹی فورسز کا اہم اور فعال کردار رہا ہے تاہم صوبے کے معاملات اور مسائل اتنے زیادہ اور پیچیدہ ہیں کہ گورننس کے ایشوز پر بار بار سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور سب حلقوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صوبائی حکومت ڈیلیور نہیں کرپارہی اور اس کی توجہ وفاقی حکومت اور مقتدرہ کے ساتھ تصادم پر مرکوز ہے ۔
اس ضمن میں حال ہی میں خیبرپختونخوا کے شمالی علاقوں میں انیوالے سیلاب اور کراؤڈ برسٹ سے پیدا ہونے والی صورتحال اور تباہی کی صورت میں صوبائی حکومت کی کمزور حکمت عملی ایک تازہ مثال ہے جس نے سینکڑوں جانیں لیں اور صوبائی حکومت نے ماضی کی کمزوریوں سے کوئی سبق نہیں سیکھی ۔ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ خیبرپختونخوا کے مقابلے میں پنجاب حکومت نے بہتر پیشگی اقدامات کے ذریعے جانی اور مالی نقصان کو کم ترین سطح پر رکھنے میں کامیابی حاصل کی ۔ یہاں تک کہ انتہائی پسماندہ سمجھنے والے افغانستان کے جن دو تین صوبوں میں گزشتہ شب تباہ کن زلزلہ سے جو صورت حال پیدا ہوئی افغان عبوری حکومت کے اداروں نے ریسکیو اور ریلیف کی مد میں خلاف توقع اس سرمے نمٹنے میں خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت سے زیادہ چابک دستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو حیران کردیا ۔
خیبرپختونخوا کی بیڈ گورننس اور روزانہ کی بنیاد پر کرپشن اور اقربا پروری کے واقعات ، اطلاعات نے پورے حکومتی نظام کو سوالیہ نشان بناکر رکھ دیا ہے اپر سے سیاسی کشیدگی کے باعث وفاقی حکومت بھی درکار تعاون فراہم کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے ۔
اب ایک نیا چیلنج افغان مہاجرین کی واپسی کی شکل میں سامنے آیا ہے ۔ اگر چہ خیبرپختونخوا اسمبلی نے افغانستان کے زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے سرحدی رعایتیں دینے کی قرارداد منظور کی ہے اور عوام بھی زلزلہ متاثرین کی مدد کے خواہاں ہیں تاہم تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ صوبائی حکومت دیگر اقدامات تو درکنار ازاخیل نوشہرہ میں مہاجرین کی واپسی کے لیے قائم کئے گئے رجسٹریشن مرکز میں دیگر سہولیات تو دور کی بات پانی جیسی ضرورت کی فراہمی کو بھی ممکن نہ بناسکی اور وہاں بچوں ، خواتین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔ ایسی ہی مشکلات کا مہاجرین کو افغانستان کے اندر بھی سامنا ہے
اپر سے چیف منسٹر علی امین گنڈا پور نے گزشتہ روز ایک بیان میں متنازعہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی حمایت کے غیر ضروری اعلان کی صورت میں ایک نئی بحث کو جنم دینے کا ” کارڈ ” پھینک دیا ہے جو کہ جاری حالات کے تناظر میں ” پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ” سے بڑھ کر کچھ نہیں کیونکہ خیبرپختونخوا اسمبلی سمیت سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں بھی متعدد بار اس مجوزہ منصوبے کے خلاف قراردادیں منظور کرچکی ہیں ۔ اس اعلان سے بہتر یہ تھا کہ وزیر اعلیٰ ان چھوٹے ڈیمز کی تعمیر کی تفصیلات فراہم کرتے جن کی تعمیر کی بنیاد پر ان کی پارٹی دو تین انتخابی مہمات کے دوران دعوے کرتی رہی ہیں ۔
وقت کا تقاضا ہے کہ دہشت گردی اور بیڈ گورننس کے خاتمے کے امکانات کو عملی شکل دیتے ہوئے قدرتی آفات کی بار بار کی تباہ کاریوں کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں اور صوبائی حکومت اپنی موجودگی ثابت کرنے پر توجہ مرکوز کرے ۔
( 2 ستمبر 2025 )

پشتون بیلٹ کو درپیش سنگین مسائل

Shopping Basket