سیاست، جمہوریت اور قومی ترقی
دنیا کے وہ ممالک جہاں جمہوریت رائج ہے، وہاں سیاستدان بھی موجود ہوتے ہیں، سیاست بھی ہوتی ہے اور سیاست چمکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ جہاں سیاستدان دانشمندی، تدبر اور حب الوطنی کو اپنا نصب العین بناتے ہیں، وہاں نہ صرف جمہوریت مضبوط ہوتی ہے بلکہ وہ ممالک ترقی اور خوشحالی کی منازل بھی طے کرتے ہیں۔ وہاں کے عوام کو بنیادی سہولیات میسر آتی ہیں اور ان کی زندگی بہتر ہوتی ہے۔
اس کے برعکس جہاں سیاستدان ذاتی انا کے خول میں قید، عقل و شعور سے عاری اور حب الوطنی کے مفہوم سے ناواقف ہوتے ہیں، وہاں نہ صرف جمہوریت کمزور ہوتی ہے بلکہ ترقی بھی ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسے ممالک کے عوام نہ صرف سہولیات سے محروم رہتے ہیں بلکہ معاشی اعتبار سے بھی پیچھے رہ جاتے ہیں، قرضوں تلے دبے ہوتے ہیں اور آمدن کا بڑا حصہ سود کی نذر ہو جاتا ہے۔
جمہوریت کو انتقال اقتدار کا بہترین ذریعہ اسی لیے سمجھا گیا کہ ہوش و حواس کے ساتھ کیے گئے فیصلے عوام کی فلاح کا باعث بنتے ہیں، مگر افسوس کہ ہمارے وطن عزیز میں اب تک سیاستدان وہ بالغ نظری نہیں دکھا سکے جو قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے درکار ہے۔
آبی وسائل اور سیاسی رویے
افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں گلیشیئرز اور دریا قدرت کا عطیہ ہیں، وہاں پانی کی بچت اور استعمال کے لیے ڈیمز اور بیراج جیسے منصوبوں پر سیاستدان متفق نہیں ہو پاتے۔ جب کبھی حکومت کسی ڈیم کی تعمیر کا ارادہ کرتی ہے، تو اس کے سامنے مشکلات کا پہاڑ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔
بارشوں کے موسم میں بے شمار پانی ضائع ہو کر سمندر میں جا گرتا ہے، حالانکہ اگر اس پانی کو محفوظ کرنے کے لیے ڈیمز اور دیگر انتظامات کیے جائیں تو کئی سالوں کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ گلیشیئرز سے پگھلنے والا پانی بھی ضائع ہو جاتا ہے، کیونکہ ہم اس سے استفادہ کرنے کے لیے کوئی مؤثر نظام نہیں بنا سکے۔
حال ہی میں وفاقی حکومت نے دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا منصوبہ بنایا جس کی قوم پرست جماعتوں نے مخالفت شروع کر دی۔ اس منصوبے کا مقصد ضائع ہوتے پانی کو کارآمد بنانا تھا مگر ہم شاید وہ قوم ہیں جسے پانی کو ضائع کرنے میں سکون ملتا ہے۔
ترقیاتی منصوبے سیاست کی نذر
جب حکومت کوئی بڑی شاہراہ بنانے کا منصوبہ بناتی ہے، تو سیاستدان اس کی مخالفت میں سامنے آ جاتے ہیں۔ نہری نظام ہو یا مائنز اینڈ منرلز بل، ہر ترقیاتی منصوبے کو سیاست زدہ کر کے متنازعہ بنا دیا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کے بیانات اور حرکات سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قومی ترقی ان کا مقصد نہیں بلکہ صرف اپنی سیاست چمکانا ہی اصل ترجیح ہے۔
ہم بلند آواز میں کہتے ہیں کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم ان وسائل کو بروئے کار لانے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر بیرونی سرمایہ کاری اور مہارت سے فائدہ اٹھایا جائے تو خوشحالی ممکن ہے، مگر ہم ان منصوبوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر کے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔
زراعت، معدنیات اور خودساختہ دشمنی
اگر ہم پانی کو مؤثر انداز میں استعمال نہیں کریں گے تو زراعت کس طرح ممکن ہو سکے گی؟ ہم ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود زرعی ترقی کے لیے مطلوبہ اقدامات نہیں کر رہے۔ ہماری زمینوں کے نیچے جو معدنیات چھپی ہوئی ہیں، اگر انہیں نکالنے کے لیے بیرونی کمپنیوں کی مدد نہ لی گئی تو وہ نعمتیں ہمارے کسی کام نہیں آئیں گی۔
دوسری طرف، ہمارے سیاستدان بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو خطوط لکھ کر مدد سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، نہری منصوبوں پر شور مچاتے ہیں اور ڈیمز کی تعمیر کی مخالفت کرتے ہیں۔ بعض سیاستدان تو دہشت گردوں کی حمایت میں بھی بیانات دیتے نظر آتے ہیں تاکہ اپنی سیاسی ساکھ برقرار رکھ سکیں۔
خودکشی پر مبنی طرز سیاست
یہ طرز سیاست نہ صرف ملکی مفاد کے خلاف ہے بلکہ قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہے۔ جب سیاست اس حد تک خود غرضی کا شکار ہو جائے تو کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں رہتی۔ دشمنی ہم خود اپنے ہی وطن سے کر رہے ہوتے ہیں۔
ایسی سیاست کے نتیجے میں غیر جمہوری قوتوں کو مداخلت کا موقع ملتا ہے، اور جب وہ مداخلت کرتی ہیں تو یہی سیاستدان ان کے آلہ کار بن کر اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں۔ اس طرز سیاست سے نہ تو جمہوریت کو فائدہ پہنچتا ہے اور نہ ہی عوام کو۔
اگر ہم واقعی اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس نرالے طرز سیاست کو خیرباد کہنا ہوگا۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ’’تمہاری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں‘‘۔