شنگھائی تعاون اجلاس کے موقع پراحتجاج

پاکستان کے حالات گزشتہ تین دہائیوں سے نارمل نہیں چل رہے جب سے امریکہ نے دہشت گردی کی جنگ پاکستان کی سرزمین سے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، تب سے پاکستان ہمہ اقسام کی مشکلات کا شکار چلا آ رہا ہے۔ 2014ء سے 2017ء تک عوام نے کچھ سکون کا سانس لیا تھا کہ اس دوران پی ٹی آئی نامی فتنے نے سر اٹھایا۔ یہ جماعت بظاہر تو ایک سیاسی جماعت ہے مگر اس کے اقدامات سے لگتا ہے جیسے سیاسی جماعت کے روپ میں یہ ایک لمیٹڈ کمپنی ہے جس نے دشمن قوتوں سے پاکستان کو تباہ کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔

2018ء سے 2022ء تک اس جماعت کو اقتدار تک رسائی نصیب رہی۔ اس دوران ملک کو ہر محاذ پر جس ندامت کا سامنا رہا، یہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ وزیر اعظم کی شریک حیات، ان کی سہیلیاں، دوست، رشتہ دار سب نے کرپشن کی بہتی گنگا میں نہ صرف ہاتھ دھوئے بلکہ پورا اشنان کیا۔ بدانتظامی، بدعنوانی، اقربا پروری اور بیڈ گورننس کے جو ریکارڈز اس دور میں قائم ہوئے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اپنے اللّو تللّوں، کہہ مکرنیوں اور نااہلی کے سبب اس جماعت کو اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے، جس پر اس کے قائد اقتدار تک رسائی کے لیے دیوانے ہوئے پھرتے ہیں۔ اس دیوانگی میں انہیں ملکی مفاد، ساکھ یا تشخص کی بھی کوئی پروا نہیں۔

رواں ماہ 5 تاریخ کو پارٹی قائد کے حسبِ حکم اسلام آباد میں احتجاج کے نام پر ایک ناکام شو کر چکی ہے، جو ہر حوالے سے ناکام رہا۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سنجانی جلسہ میں پندرہ دن کے اندر عمران خان کی عدم رہائی کی صورت میں انہیں جیل سے نکال کر لے جانے کی بڑھک لگا چکے تھے، اس لیے حکومت اور عوام کو تشویش لاحق تھی کہ معاملہ پرتشدد صورت اختیار نہ کر لے۔ پھر اس سے قبل دو مواقع پر علی امین گنڈاپور بروقت پہنچنے سے قاصر رہے تھے، جس کے سبب انہوں نے اپنی بڑھکوں میں نئی جان ڈالنے کے لیے نئی نئی ڈینگیں ایجاد کی تھیں مگر مقررہ وقت پر انہیں جس ندامت کا سامنا کرنا پڑا، وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

علی امین گنڈاپور اسلام آباد پہنچنے کے بعد تیس گھنٹوں کے لیے غائب ہو گئے۔ اس دوران پارٹی رہنماؤں نے ان کی گرفتاری پر چیخ و پکار سے زمین و آسمان ایک کر دیے۔ ان کی بازیابی کے لیے عدالت سے رجوع کی باتیں کی گئیں۔ وزیراعلیٰ کی گرفتاری کی سنگین صورتحال کے پیش نظر اسمبلی کا ہنگامی اجلاس اسمبلی رولز و قواعد کے برخلاف چھٹی کے روز بلایا گیا۔ ان کی گمشدگی پر مذمت اور انہیں پیش کرنے کے لیے بلائے گئے اجلاس میں وزیراعلیٰ نے بذاتِ خود چہرہ نمائی فرمائی اور اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایک ماورائی کہانی سنائی کہ وہ جنگل میں جا رہے تھے، وہاں ایک گاڑی آئی، ان کے پاس فون تھا نہ جیب میں پھوٹی کوڑی۔ پھر وہ اس تہی دامنی کے عالم میں گزشتہ تیس گھنٹے کے دوران بارہ ضلعوں کا سفر کر کے اسمبلی اجلاس میں پہنچے۔ اور مزید باعثِ تعجب کہ پہنچتے ہی چھٹی والے دن اسمبلی اجلاس کا الہام ہوا اور وہ بغیر شکن کے اجلے لباس اور ہشاش بشاش صورت کے ساتھ اسمبلی میں حاضر ہوئے۔

دوسرے ہی دن کہانی میں کچھ ترامیم کر کے ڈی۔ پی۔ او اور ناشتے وغیرہ کو بھی اس کا حصہ بنا لیا گیا۔ پی ٹی آئی اس ندامت سے ابھی نکلی نہیں کہ پارٹی کی سیاسی کمیٹی نے عین شنگھائی تعاون تنظیم جیسے اہم اجلاس کے موقع پر ڈی چوک میں احتجاج کا اعلان کر دیا۔ ان کا پہلا احتجاج بھی ایس۔ او۔ سی اجلاس کے موقع پر انتشار کو ہوا دے کر اسے سبوتاژ کرنے کی کوشش تھی جو ناکام رہی۔ اب عین اسی موقع پر احتجاج کی ایک اور کال سے ثابت ہو رہا ہے کہ اس جماعت کے رہنماؤں نے پاکستان کو تباہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔

دورانِ اقتدار انہوں نے ملک کے تمام شعبے تباہ و برباد کر دیے، ملکی ساکھ کو داؤ پر لگا دیا، ملکی تشخص کو نقصان پہنچانے اور دوست ممالک کو ناراض کرنے کے تمام امور سر انجام دیے۔ اب اپوزیشن میں اس سے بڑی تباہی پھیلانے کے درپے ہیں۔ پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس کوئی معمولی واقعہ نہیں، اس سے دشمنوں کے سینے پر مونگ دل رہی ہے۔ چین کی غیرمشروط حمایت شامل حال نہ ہوتی تو پاکستان میں اس قسم کے اجلاس کا انعقاد ممکن ہی نہ تھا۔

اسی موقع پر اسلام آباد کے ریڈ زون میں احتجاج کا تماشا لگانا، آنسو گیس کی شیلنگ، فائرنگ کی تھڑ تھڑاہٹ، جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کرنے کے عزائم کہاں کی حب الوطنی ہے؟ اور یہ لوگ سیاست کے نام پر پاکستان کا کون سا تشخص اجاگر کرنا چاہتے ہیں؟ یا جمہوریت کی کون سی قسم متعارف کروانا چاہتے ہیں؟ ان کا مقصد محض انتشار ہے۔ گزشتہ احتجاج سے یہ جماعت اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہوئی، نہ ہی عمران خان رہا ہو سکے، نہ ہی ریاست مجبور ہو کر اڈیالہ جیل پر سجدہ ریز ہوئی اور نہ ہی پی ٹی آئی کو اقتدار تک رسائی نصیب ہو سکی۔

ایس۔ سی۔ او۔ اجلاس کے موقع پر احتجاج سے مزید ندامت نوشتہء دیوار ہے۔ اجلاس کے انعقاد کے لیے حکومت منظم انداز میں متحرک ہے۔ اسلام آباد میں تین دن کی عام تعطیل کر دی گئی ہے۔ یقیناً اجلاس سے پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر ہوگا، معاشی ترقی کی راہیں کھلیں گی، دوست ممالک کا اعتماد بڑھے گا اور بیرونی سرمایہ کاری کی ترغیب ملے گی۔ یہ اجلاس پاکستان میں انعقاد کوئی معمولی بات نہیں بلکہ یہ تباہ حال پاکستان (جس کی تباہی میں پی ٹی آئی اور عمران خان کا کردار بدرجہء اتم موجود ہے) کے لیے نئی راہیں کھولنے کا سبب بن سکتا ہے۔

اگر یہاں انتشار، توڑ پھوڑ اور تشدد کی خبریں بیرونی دنیا میں جائیں گی تو کسی ملک کا سربراہ شرکت سے انکار بھی کر سکتا ہے، جو پاکستان اور عوام کے لیے باعث ندامت ہوگا۔ ریاست کو اپنی رٹ قائم رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جانا جائز ہے۔ انتشاری ٹولے کو شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے موقع پر احتجاج اور اسے سبوتاژ کرنے کی اجازت کسی صورت نہ دی جائے۔ ملک دشمن قوتوں کے آلہء کاروں اور سیاسی لبادے میں تخریب کاروں سے انہی کے انداز میں نمٹا جائے۔ ریاست کا آہنی ہاتھ اس اہم موقع پر کسی بھی شرپسند کی گردن دبوچنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔ سیاست اور جمہوریت کے نام پر انارکی پھیلانے والوں کے عزائم خاک میں ملانا ضروری ہو چکا ہے۔

وصال محمد خان

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket