Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Wednesday, November 26, 2025

صوبائی حکومت کاامن جرگہ

گزشتہ ہفتے صوبائی حکومت کی جانب سے خیبرپختونخوااسمبلی میں امن جرگہ منعقدکیاگیا۔اس جرگے کیلئے دس بارہ روزسے تیاریاں کی گئی تھیں۔امن جرگہ میں شرکت کیلئے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کودعوت دی گئی تھی۔جرگہ میں جن قدآورسیاسی شخصیات نے شرکت کی ان میں سابق وزیراعلیٰ آفتاب شیرپاؤ،اے این پی کے صوبائی صدرمیاں افتخارحسین،جماعت اسلامی کے سابق امیرسراج الحق،علامہ ناصر عباس،پیرصابرشاہ،گورنرفیصل کریم کنڈی،وزیراعلیٰ سہیل آفریدی اوراپوزیشن لیڈرڈاکٹرعباداللہ قابل ذکرہیں۔جرگہ میں سابق وزرائے اعلیٰ، گورنرز،سابق اورموجودہ ارکان قومی وصوبائی اسمبلی سمیت 20سے زائدسیاسی جماعتوں کی صوبائی قیادت،وکلاء،تاجروں،سول سوسا ئٹی کے نمائندوں اورزندگی کے دیگرشعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افرادنے کثیرتعدادمیں شرکت کی۔جرگے کی میزبانی سپیکربابرسلیم سوا تی نے کی۔جرگہ شرکاء کی جانب سے تجاویزآنے پرسپیکر نے مشترکہ اعلامیہ پڑھ کرسنایا۔ جرگے نے جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے اس میں دہشت گردی کی مذمت کی گئی ہے اورکہاگیاہے کہ دہشتگردی کے حوالے سے صوبائی اسمبلی کواعتمادمیں لیاجائے، داخلی سلامتی کی ذمہ داریاں پولیس اورسی ٹی ڈی کودی جائیں،غیرضروری چیک پوسٹیں ختم کی جائیں،خیبرپختونخوا کے شورش زدہ علاقوں میں معدنیات کی غیرقانونی منتقلی روکی جائے،پاک افغان تجارتی راستے کھولے جائیں،افغان پالیسی میں صوبائی حکومت سے مشاورت کی جائے، افغانستا ن کیساتھ جنگ کی بجائے سفارتکاری کوترجیح دی جائے،صوبائی حکومت اوراسمبلی نیشنل ایکشن پلان مرتب کریں،امن و امان کے حوالے سے صوبائی اسمبلی کی منظورشدہ قراردادوں پرفوری عملدرآمدکیاجائے،پولیس اورسی ٹی ڈی کو صوبے کی سلامتی کی قیادت سونپ دی جائے اور ضرورت پڑنے پردیگراداروں سے معاونت لی جائے،صوبائی حکومت پولیس اورسی ٹی ڈی کی خصوصی مالی معاونت کرے،امن جرگہ نے تجویزدی کہ صوبائی اسمبلی اورحکومت صوبائی ایکشن پلان مرتب کریں،وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے درمیان تناؤ کو ختم کیاجائے،مشترکہ مفادات کونسل کااجلاس آئینی مدت کے مطابق بلایاجائے،غیرقانونی محصولات اوربھتہ خوری کے خاتمے کیلئے مربوط پالیسی بنائی جائے،صوبائی اسمبلی کو سیکیورٹی اداروں کی کارروائیوں اورقانونی بنیادوں پربریفنگ دی جائے،صوبائی سطح پرامن کیلئے فورسزقائم کی جائیں، مقامی حکومتوں کے استحکام اورمالی تحفظ کیلئے ترامیم کی جائیں،نیشنل فنانس کمیشن کوصوبائی فنانس کیساتھ منسلک کیا جائے،وفاق کے ذمے صوبے کی آئینی اور مالی حقوق کی مدمیں رقوم اداکی جائیں،آرٹیکل 151کے تحت بین الصوبائی تجارت پرعملدر آمد کیاجائے۔جرگے کے اعلامیہ اورسفارشات میں بہت سے نکات ایسے بھی ہیں جن کاتعلق صوبائی حکومت سے ہے۔محصولات اوربھتہ خوری،مقامی حکومتوں کومالی تحفظ کیلئے ترامیم اور صوبائی سطح پرامن فورسزجیسے معاملات صوبے کادائرۂ اختیارہے مقامی حکومتیں بارہ سال سے پی ٹی آئی حکومتوں کی عتاب کاشکار ہیں۔اس دوران دومرتبہ 2015ء اور2021ء میں بلدیاتی انتخابات منعقدکئے گئے مگر منتخب نمائندوں نے اپنادورانیہ حقوق کیلئے سڑکوں پراحتجاج میں گزاردیا،وہ عدالتوں سے رجوع کررہے ہیں اورکبھی وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنے دے رہے ہیں مگرصوبائی حکومتیں انہیں اپناحق دینے پرآمادہ دکھائی نہیں دے رہیں۔اس سلسلے میں محمودخان اورگنڈاپور حکومتو ں نے جو کردار اداکیاوہ قابل رشک نہیں ان دونوں حکومتوں نے بلدیاتی نمائندوں سے ان کاحق چھینااورانہیں فنڈزواختیارات سے محروم رکھا۔ صوبائی سطح پرامن فورسزقائم کرنے کانعرہ خوش کن ضرور ہے مگرپی ٹی آئی حکومتوں نے اب تک امن وامان کامعاملہ سنجیدہ لیاہی نہیں گنڈا پور اور سہیل ٓافریدی نے سیکورٹی فورسزپر تنقیدکے تیر برسا نے کے سواکچھ نہیں کیا۔بھتہ خوری کاخاتمہ اورمحصولات بھی صوبائی معاملات ہیں۔جرگہ سے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے اپنے خطاب میں کہاکہ”دہشتگردی سے تمام جماعتیں یکساں متاثرہوتی ہیں بم اور بارودبلاتفریق سب کونشانہ بناتے ہیں،وقت آچکاہے کہ سیاست اور سیاسی اختلافات سے بالا ترہوکرایک مشترکہ پالیسی اپنائی جائے،امن تب قائم ہوگاجب دہشتگردی کاخاتمہ ہوگا،بندکمروں کے فیصلوں سے امن نہیں آئیگاوفاق ہماراقرضدارہے،اسے ہمارے واجبات ادا کرنے ہونگے“۔گورنرفیصل کریم کنڈی نے کہاکہ”درپیش چیلنجزکے پیش نظرماضی کوبھلانا ہوگا،افغانستان ہماراپڑوسی ہے، جسکے ساتھ معاملات بات چیت سے حل کرنیکی ضرورت ہے“۔سپیکر بابر سلیم سواتی نے کہاکہ”ہماری فوج دنیاکی بہادرترین فوج ہے اورپولیس بھی فرنٹ لائن پرڈٹی ہوئی ہے،فوج اورپولیس کی انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنزاور بیش بہاقربانیوں کے باوجودصوبہ امن سے محروم ہے جوکسی المئے سے کم نہیں“۔اے این پی کے صوبائی صدرمیاں افتخارحسین نے کم وقت ملنے پر شکوہ کیا۔ شکایت دورکرتے ہوئے انہیں پورا موقع دیاگیا انہوں نے اپنے خطاب میں کہاکہ ”صوبائی حکومت کو امن کیلئے اونرشپ لینی ہوگی،گزشتہ بارہ برس سے ایک ہی پارٹی کی حکومت ہے جس پرتمامترذمہ داری عائدہوتی ہے، ہم نے دوران حکومت دہشتگردی کیخلاف مکمل اونرشپ لی جس کی ہمیں قیمت بھی اداکرنی پڑی، وفاقی،صوبائی حکومتوں اوراداروں کوجامع پالیسی بنانی ہوگی، تنازعا ت کاحل مذکرا ت میں ہے تمام بارڈرزکھو لے جائیں اورذمہ داری صوبائی حکومت کوسونپ دی جائے،گڈاوربیڈکی تفریق ختم کرکے تمام جماعتوں اور شدت پسندتنظیموں پرپابندی عائدکی جائے انکے مالی وسائل پرنظررکھی جائے اورانہیں اپنے نظریات کی ترویج کی اجازت نہ دی جائے“۔ سابق وزیراعلیٰ آفتاب شیرپاؤنے کہا کہ”جرگہ امن کے معاملے پربلایاگیاہے مگرصوبے کے اوربھی مسائل ہیں،صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے استفسارہوناچاہئے کہ نیشنل ایکشن پلان پرعمل کیونکرنہ ہوسکا؟“۔وحدت المسلمین کے صدر علامہ ناصرعباس نے کہاکہ پاکستان کو پُر امن بنانے کیلئے تمام ایشیائی ممالک کواپناکرداراداکرناچاہئے،27ویں آئینی ترمیم ظلم ہے اسکے خلاف احتجاج کرینگے“۔ جماعت اسلامی کے سابق امیرسراج الحق نے کہاکہ جنگ کی باتیں کرنیوالے کابل اورپشاورکی تباہی کے خواہاں ہیں،آفتاب شیرپاؤکی سربراہی میں جرگے نے کابل سے بات چیت کی تھی اس جرگے کودوبارہ تشکیل دیاجائے،صوبے اوروفاق کے درمیان چپقلش سے معاملا ت آگے نہیں بڑھ رہے۔ سابق وزیراعلیٰ پیرصابرشاہ نے کہاکہ پاکستان دہشتگردی کاشکارہے،پاکستان گیس ذخائرکے اعتبارسے دنیاکا پانچواں بڑاملک ہے اگر ہم اپنے معدنی وسائل درست طریقے سے استعمال کریں توہمیں امداددینے والے ہم سے امدادمانگیں گے۔سابق گورنرشوکت اللہ خان نے کہاکہ جرگے کی آوازافغانستان تک جانی چاہئے ہم نے انکے ساتھ اپنی روٹی بانٹی مگریہ لوگ جاتے ہوئے پاکستان کوگالیاں دے رہے ہیں جو افسوسناک ہے۔ڈاکٹرعباداللہ نے کہاکہ جرگہ محض نشتندگفتندبرخاستندتک محدودنہیں ہوناچاہئے۔ دوسری جانب امن جرگہ میں دعوت کے باوجودسابق وزرائے اعلیٰ اکرم درانی،پرویزخٹک،امیرحیدرہوتی،علی امین گنڈاپور،اورسابق گورنرزاویس احمدغنی،اقبال ظفر جھگڑا،بیرسٹرمسعودکوثر،لیفٹیننٹ جنرل (ر)محمدجان اورکزئی اورسردارمہتاب عباسی شریک نہیں ہوئے۔

وائس آف کے پی اور اسکی پالیسی کا لکھاری کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

صوبائی حکومت کاامن جرگہ

Shopping Basket