اقتدار کی بھول بھلیوں سے تحریک انصاف کی رخصتی عمل میں آنے کے بعد بقول عمران خان اور ان کے ہمنوا ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے جس کا خاتمہ ان کی اقتدار میں واپسی سے ممکن ہے۔ حالانکہ ملک میں کوئی سیاسی بحران یا عدم استحکام کی صورت موجود نہیں، ملکی معیشت دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے، سٹاک ایکسچینج نت نئے ریکارڈز قائم کر رہی ہے اور پی ٹی آئی نے تمام شعبوں کا جو کباڑا کیا تھا وہ اب کچھوے کی چال بحال ہو رہے ہیں۔
عمران خان اور ان کے ہمنواؤں کی سابقہ بدترین کارکردگی، نااہلی، کرپشن اور بدانتظامی کے پیش نظر اقتدار میں اس ٹولے کی واپسی اس سارے عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہوگا۔ یہ لوگ اقتدار میں واپسی کے شدید آرزومند ہیں مگر ان کے پاس ملکی مسائل کا کوئی حل موجود نہیں۔ یہ اقتدار میں واپسی کے لیے تمام جتن کر رہے ہیں۔
امریکہ پر الزامات اور تضادات
ابتدا میں امریکہ پر الزامات لگائے گئے کہ اس نے رجیم چینج میں کردار ادا کیا، بعد میں اسی امریکہ کے اندر فرمز ہائر کر کے انہیں اربوں روپے کی ادائیگیاں کی گئیں تاکہ وہ امریکہ میں ان کی مسخ شدہ ساکھ بحال کریں۔
پاک فوج کو روز اول سے ہی ہدف بنا کر اسے سیاست زدہ کرنے کی کوشش کی گئی، آرمی قیادت کو عجیب و غریب القابات سے نوازا گیا، حکومت کی رخصتی کا الزام دیا گیا اور بعدازاں فوجی تنصیبات پر حملے کر کے وہاں توڑ پھوڑ کی گئی اور تاریخی ورثہ نذر آتش کیا گیا۔ تحریک انصاف نے اس دوران جو رویے اپنائے وہ کسی صورت سیاسی جماعت کو زیب نہیں دیتے بلکہ اس نے خود کو پریشر گروپ یا پرتشدد تنظیم کے طور پر پیش کیا۔
فوج سے مذاکرات کی ناکام کوششیں
جب ان سب سے کام نہ بنا تو فوج کو مذاکرات کی دعوت دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ کئی بار دعوت دینے کے باوجود جب فوج کی جانب سے کہا گیا کہ اسے سیاست سے کوئی سروکار نہیں، اگر کسی سیاسی جماعت نے مذاکرات کرنے ہیں تو اس کے لیے سیاسی قوتیں اور حکومت موجود ہے، ان کے ساتھ اپنے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ سیاسی قوتوں کے ساتھ پی ٹی آئی قیادت بیٹھنے کو تیار نہیں۔
یہ امر بھی باعث تعجب ہے کہ خود کو سیاسی جماعت کہلانے والی پارٹی ملک بھر کی کسی سیاسی جماعت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر تیار نہیں بلکہ وہ مذاکرات فوج کے ساتھ کرنا چاہتی ہے۔ 26 نومبر 2024ء کو اسلام آباد میں پرتشدد احتجاج کی کال دی گئی جس کی ناکامی پر حکومت سے مذاکرات کے لیے کمیٹی بنائی گئی۔ حکومت چونکہ سنجیدہ اور تجربہ کار لوگوں کی ہے جو سمجھتے ہیں کہ سیاسی مسائل مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتے ہیں اس لیے حکومت نے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنا دی، مگر صرف ایک نشست کے بعد حکومتی کمیٹی پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی کا انتظار کرتی رہ گئی اور اس نے انہی مذاکرات سے انکار کر دیا جن کے لیے اس نے ازخود کمیٹی بنا دی تھی۔
علیمہ خان کا بیان اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ
اب ایک بار پھر بانی پی ٹی آئی کی بہن محترمہ علیمہ خان یا خانم نے اپنے بھائی سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے بلکہ شوشہ چھوڑا ہے کہ وہ فوج سے کچھ لو اور کچھ دو کے تحت گفتگو کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے خفیہ مذاکرات اور تین شرائط کا ذکر بھی کیا۔
علیمہ خان کا یہ بیان تضادات کا مجموعہ ہے۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ شرائط کس نے اور کب پیش کیں؟ رابطے کب ہوئے؟ اور ان میں حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کس نے حصہ لیا اور پی ٹی آئی کے کون سے راہنما شامل ہوئے؟ جیسا کہ پہلے درجنوں بار لغو دعوے کر کے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی گئی، یہ بھی اسی طرح کی ایک کوشش لگتی ہے۔
حکومت کی حیثیت اور فوج کا کردار
عمران خان سے کیوں یہ درخواست کی جائے گی کہ وہ حکومت کو تسلیم کر لے؟ کیا ان کی تسلیم نہ کرنے سے حکومت کی صحت پر کوئی فرق پڑا ہے؟ اور ان شرائط کے مقابلے میں عمران خان نے کون سی شرائط پیش کیں؟ عمران خان کے پاس حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کو دینے کے لیے کیا ہے؟ عمران خان اگر جیل میں ہیں تو حکومت بہترین انداز میں چل رہی ہے بلکہ اس کے اقدامات اور پالیسیوں سے ملک مسائل کے گرداب سے نکل رہا ہے۔
فوج کو کیا مجبوری ہے کہ وہ عمران خان کی شرائط مان لے؟ کیونکہ حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران فوج نے اپنے فرائض بخوبی نبھائے اور دشمن کو ایسا منہ توڑ جواب دیا جو تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ فوج کے پاس ایسی کوئی کمی نہیں جسے پورا کرنے کے لیے اسے عمران خان سے مذاکرات کی ضرورت پڑے یا ان کی کوئی شرط ماننی پڑ جائے۔
غیر سنجیدہ سیاست کا تسلسل
ان بیانات کی ایک تو کوئی حیثیت نہیں، دوسرے ان میں کوئی معقول بات موجود نہیں۔ حالات و واقعات اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ علیمہ خان کا حالیہ بیان بھی محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے۔ فوج کو سیاسی بیانات کا محور بنا کر یہ لوگ محض اپنی سیاست چمکا رہے ہیں اور میڈیا میں اِن رہنا چاہتے ہیں جس سے ان کی سیاست زندہ ہے۔
درحقیقت یہ پوری پارٹی سیاسی جماعت کے نام پر ایک غیر سنجیدہ ٹولہ ہے جس نے اقتدار کے دوران پاکستان کے تمام شعبوں کا بیڑہ غرق کر دیا تھا اور اپوزیشن میں بھی یہی حرکات جاری رکھے گئے ہیں۔ ایک راہنما مذاکرات کا بیان داغ دیتا ہے تو دوسرا جیل میں ملاقات کرنے کے بعد تحریک چلانے کی دھمکی دے ڈالتا ہے۔ صبح مذاکرات کی بات کی جاتی ہے تو شام کو تحریک کی دھمکی دی جاتی ہے۔
کوئی وژن یا منشور نہیں
سیاست کے نام پر اس غیر سیاسی ٹولے کے ہاں سیاسی رویوں کا فقدان ہے۔ سیاسی جماعتوں کا جو اصل کام ہوتا ہے کہ وہ ملک و قوم کی ترقی کے لیے کوئی روڈ میپ پیش کرتی ہیں، منصوبہ سازی کرتی ہیں اور قابل عمل منشور سامنے لاتی ہیں، ان میں اس جماعت نے آج تک کوئی کام انجام نہیں دیا۔
بس آج اس کے خلاف بیان، کل اُس کے خلاف بیان، آج امریکہ کو الزام، کل سعودی عرب پر کیچڑ اچھالنا اور ان سب کو سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا کر بغلیں بجانا کہ واہ واہ عمران خان نے مقبولیت کے تمام ریکارڈز توڑ دیے۔
یہ چونکہ سیاسی جماعت نہیں، اس کے پاس کوئی پروگرام نہیں، کوئی منشور یا منصوبہ نہیں اس لیے یہ پوری پارٹی ڈیل اور ڈھیل کے گرداب میں پھنس چکی ہے اور ان کے قائدین کا عقیدہ ہے کہ انہیں اقتدار ڈیل کے نتیجے میں ملا، اب مشکلات ڈھیل کے نتیجے میں ختم ہوں گی۔ اس لیے یہ گزشتہ چار سال سے ڈھیل اور ڈیل کی گردان جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر ان کی سیاست ڈھیل اور ڈیل کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔