وطن عزیزمیں دینی مدارس کی بہت بڑی تعدادموجودہے ۔اوریہ تعداداس قدرزیادہ ہے کہ انکی درست تعدادریاست کوبھی معلوم نہیں۔ افغانستان پرامریکی حملے کے بعد پاکستان میں مدارس کے حوالے سے کچھ نئے اورسنجیدہ مسائل نے جنم لیناشروع کیاکئی بڑے دہشت گردمدارس سے گرفتارہوئے اوران گنت کے بارے میں معلوم ہواکہ وہ یاتوکسی مدرسے میں قیام پذیررہے ہیں یاوہاں سے انکی سہولت کاری کی گئی ہے ۔ایف اے ٹی ایف کے گرے لسٹ سے ہمکنارہونے میں اگرچہ دیگربھی بہت سے عوامل کارفرمارہے مگراس میں مدارس کی بے ترتیبی اورفنڈنگ کابھی خاصاعمل دخل رہا۔مدارس میں دیگرممالک کے طلبہ کابغیردستاویزات اورغیرمتوازن قیام اوراس سے پیدا ہونے والے مسائل بھی خاصی گھمبیرصورت اختیارکرچکے تھے۔
ان حالات میں ریاست کومدارس کی رجسٹریشن اورانہیں قومی دھارے میں لانے کی فکردامن گیر ہوئی اوراس ضرورت کومحسوس کیاگیا کہ ملک میں موجودمدارس کاڈیٹاریاست کے پاس ہوناچاہئے اوریہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ان مدارس میں کس کس ملک کے طلبہ زیرتعلیم ہیں کیونکہ دہشت گردی میں ملوث بعض غیرملکی طلبہ انہی مدارس میں پناہ گزیں رہے ہیں ۔ اس حوالے سے عمران خان دورِحکومت میں ایک معاہدہ ہواتھاجس میں طے پایاکہ تمام مدارس وزارت تعلیم کیساتھ رجسٹرہونگے اور غیرملکی طلبہ کونوسال کا ویزہ جاری کیاجائیگا۔جامعہ رشیدیہ کے مہتمم مفتی عبدالرحیم کااس حواالے سے کہناہے ‘‘کہ اٹھارہ ہزارمدارس میں بائیس لاکھ طلبہ زیرتعلیم ہیں انکی رجسٹریشن ہورہی ہے اورکسی قسم کی کوئی رکاوٹ موجودنہیں ،کچھ ہی عرصہ قبل اڑھائی ہزارطلبہ کوفری لانسنگ کی تربیت دی گئی اورانہیں نقد رقم کی صورت میں ساڑھے سات کروڑروپے کی ادائیگی ہوئی،ہمارے اٹھارہ ہزارمدارس وزارت تعلیم کیساتھ رجسٹرڈ ہیں جنہیں کسی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں اگر مولانافضل الرحمان کی خواہش پرمدارس رجسٹریشن وزار صنعت وتجارت کے تحت ہوئی تو وزار ت تعلیم کیساتھ منسلک اٹھارہ ہزارمدارس کی رجسٹریشن منسوخ ہوجائیگی جوہمارے لئے قابل قبول نہیں۔
اگرمولانافضل الرحمان مدارس کی رجسٹریشن وزارت صنعت وتجارت کیساتھ کرنا چاہتے ہیں توانکے مدارس کورجسٹرکیاجائے ہم نے وزارت تعلیم کیساتھ جومدارس رجسٹرکئے ہیں انکے فوائدسے بائیس لاکھ طلبہ مستفیدہو رہے ہیں بڑی محنت سے وزارت تعلیم کیساتھ رجسٹریشن کاجونظام بنایاگیاہے ہم اسے کھونانہیں چاہتے’’ ۔اس سلسلے میں26ویں آئینی ترمیم کیساتھ پاس ہونے والا مدارس رجسٹریشن بل آجکل موضوع بحث بناہواہے ۔مولانافضل الرحمان بضد ہیں کہ مدارس کی رجسٹریشن سوسائٹیزایکٹ1860ء کے تحت ہونی چاہئے ۔درحقیقت سوسائٹیزایکٹ 1860ء اس وقت نافذہوتا تھا جب مدارس رجسٹریشن کیلئے کوئی قانون موجودنہیں تھاآرمی پبلک سکول سانحہ کے بعدقومی سلامتی پالیسی کے تحت نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیاگیاجس کاایک پہلویہ بھی تھاکہ مدارس کورجسٹرکرکے قومی دھارے میں لایاجائیگا۔اس معاملے پر مختلف مکاتب فکرکے علماء کیساتھ بھی سیرحاصل مشاورت ہوئی جس کے نتیجے میں اتحاد تنظیم المدارس اوروزیرتعلیم شفقت محمود کے درمیان معاہدہ طے پایاکہ مدارس کو وزارت تعلیم کیساتھ رجسٹرکیاجائیگا، دینی تعلیم کیساتھ عصری علوم پربھی توجہ دی جائیگی، کوئی مدرسہ شدت پسندی کے فروغ پرمبنی نصاب نہیں پڑھا ئیگا، تمام مدارس کے بینک اکاؤنٹس کومانیٹرکیاجائیگا، ہرمدرسہ خود کوڈائرکٹرجنرل مذہبی امورکے پاس رجسٹر کروائیگا جو وزار ت تعلیم کے تحت کام کریگا۔ مذکورہ معاہدے کا مقصد مدارس کا ڈیٹا اکھٹا کرنا،عصری تعلیم اوربیرون ملک سے مدارس میں آنیوالے طلبہ کا ریکارڈ رکھنا تھا۔ جس پرمولانافضل الرحمان نے بھی اتفاق کیاتھامگراب وہ بضدہیں کہ مدارس کی رجسٹریشن ایکٹ 1860سیکشن 21کے تحت ہونی چاہئے جووزات صنعت وتجارت کے تحت آتاہے جس کااس معاملے سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وزارت صنعت وتجارت نہ ہی کسی مدرسے کااکاؤنٹ چیک کرسکتی ہے اورنہ ہی اسے غیرملکی طلبہ کومانیٹرکرنے کاکوئی اختیارہے۔
اس معاہدے کے مطابق اب تک 18ہزار60 مدارس رجسٹریشن کرواچکے ہیں جس کے تحت ہزاروں طلبہ کوتکنیکی اورعصری تعلیم دی جاچکی ہے ۔علماء کی ایک بڑی تعداد مدارس کی رجسٹریشن وزارت تعلیم کیساتھ کرنیکی حامی ہے مگرمولانافضل الرحمان ورانکے رفقاء اس عمل کے خلاف میدان گرم کئے ہوئے ہیں ۔مولانافضل الرحمان چونکہ ایک زیرک،مدبراوردوراندیش سیاستدان ہیں وہ قومی سلامتی کے تقاضوں سے بخوبی آگاہ ہیں اورقومی سلامتی کے معاملے پرریاستی پالیسی کے حامی بھی ہیں ۔انہیں بخوبی علم ہے کہ ملک دشمن قوتیں کس طرح ریاستی اداروں کو غیرفروعی مسائل میں الجھاکر اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں وہ نان ایشوزکوایشوبناکرریاست کیلئے مشکلات پیداکرناچاہتی ہیں تاکہ خدانخواستہ پاکستان کوکسی بھی قسم کانقصان پہنچے ۔ فرقہ وارانہ فسادات ہوں ،دین کے نام پردہشت گردی ہو،بے گناہ شہریوں کاقتل عام ہویاپرتشدد احتجاج ان سب کی پشت پرملک دشمن قوتیں موجود ہیں جوقومی اورملکی سلامتی کے درپے ہیں۔
مولانافضل الرحمان سے بجا طوریہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ قومی سلامتی اوراستحکام سے جڑے اس اہم معاملے پراپنی دانش اورتدبرکوبروئے کارلائینگے وہ سیاسی ڈائیلاگ پریقین رکھنے والے دوراندیش سیاستدان ہیں حکومت اور یاست کیساتھ بامعنی مذاکرات سے یہ معاملہ باآسانی حل کیاجاسکتا ہے بیان بازی ،پرجوش خطابات اوراسلام آبادمیں احتجاج کی دھمکیوں سے مسائل کا حل ممکن نہیں بلکہ اس سے معاملات مزیدا لجھاؤ کا شکارہوتے ہیں۔
وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے رابطہ اورانکے نمائندوں کی ملاقاتوں سے واضح ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت مولاناکوساتھ لیکرچلناچاہتی ہے اورقومی سلامتی کے معاملات پر تمام سٹیک ہولڈرزکواعتمادمیں لیناچاہتی ہے ۔قوم کو امیدہے کہ مدارس کی رجسٹریشن کااہم معاملہ افہام وتفہیم سے حل کیاجائیگااس طرح ملک دشمن قوتوں کے مذموم عزائم پیوست خاک ہونگے اور پاکستان ترقی کی شاہراہ پربلارکاوٹ سفر جاری رکھ سکے گا۔
وصال محمد خان