Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Friday, June 27, 2025

پاک افغان تعلقات کی بحالی

وصال محمد خان

جب سے افغانستان میں موجودہ طالبان عبوری حکومت برسراقتدار آئی ہے تب سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ چکے ہیں۔ اگست 2021ء سے قبل بھی پاکستان میں افغانستان سے حملے ہو رہے تھے مگر امریکہ کی رخصتی کے بعد اس سلسلے میں تیزی دیکھنے کو ملی۔

بلاشبہ پاکستان میں ہونے والے حملوں کے پیچھے فتنۃ الخوارج کا ہاتھ ہے۔ یہ شرپسند عناصر معصوم اور بےگناہ شہریوں پر حملوں کے ذریعے پاکستان کو جھکانا چاہتے ہیں۔ یہ عناصر طویل عرصے سے افغانستان میں موجود ہیں اور وہاں کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

یہ شرپسند عناصر اپنے تئیں جہاد کر رہے ہیں حالانکہ جہاد میں کہیں بھی معصوم شہریوں، خواتین اور بچوں پر حملوں کی اجازت نہیں۔ تاریخ اسلام میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں کہ اسلامی لشکر نے پُرامن شہریوں کو نشانہ بنایا ہو، ان کی املاک کو نقصان پہنچایا ہو یا بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو ناحق قتل کیا ہو۔ یہ جو بزعمِ خود اسلام اور جہاد کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں، درحقیقت ان کا اسلام اور جہاد دونوں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ان کا خودساختہ جہاد غیرملکی سپانسرڈ ہے اور اس میں اب کسی شبہے کی گنجائش نہیں کہ اس کے لیے بھارت وسائل فراہم کر رہا ہے جس کا مقصد پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا اور کمزور کرنا ہے۔

اس مقصد کے لیے وہ اربوں ڈالرز خرچ کر رہا ہے اور ٹی ٹی پی نامی دہشت گرد تنظیم پیسے کے لیے دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔ پاکستان چونکہ موجودہ دنیا کا واحد ملک ہے جو کلمے کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آیا ہے، اس ملک کا آئینی ڈھانچہ اسلامی بنیادوں پر استوار ہے اور اس کی پہلی سطر ہی اللہ کی حاکمیت کا اقرار ہے۔

ایک ایسا ملک جہاں 95 فیصد سے زائد آبادی مسلمانوں کی ہو، لاکھوں مساجد آباد ہوں، لاکھوں علمائے دین موجود ہوں اور یہ ملک سالانہ لاکھوں حفاظِ قرآن پیدا کر رہا ہو، اس کے خلاف حملے جہاد نہیں، فساد ہے۔ ہزاروں معصوم شہریوں اور ایک اسلامی ملک کے باوردی محافظوں کے قتل میں ملوث یہ گروہ پاکستان کا مجرم ہے۔

پاکستان نے بارہا افغان عبوری حکومت کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا کہ افغان سرزمین پاکستان میں خونریزی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ افغان عبوری حکومت کوئی سال بھر پہلے بھی یہ حکم جاری کر چکی ہے کہ پاکستان چونکہ ایک اسلامی ملک ہے اس لیے وہاں حملے کرنے کو جہاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی سلسلے میں افغان عبوری حکومت نے کہا تھا کہ پاکستان میں حملے کرنے والے افراد کے جنازوں میں شرکت نہیں کی جائے گی مگر اس کے باوجود شرپسند گروہ اپنے حرکات سے باز نہیں آیا اور پاکستان میں حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔

گزشتہ ماہ چین نے پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کی میزبانی کی اور دونوں ممالک کے درمیان ثالث کا کردار ادا کیا۔ چین کی مخلصانہ کوششیں کامیاب رہیں جس کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بحال ہوئے۔ افغان حکومت نے اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کی جو یقین دہانی دوحہ معاہدے کے موقع پر کروائی تھی، اس پر عملدرآمد کا آغاز اب ہو رہا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد افغان طالبان کے کمانڈر سعیداللہ سعید نے فتنۃ الخوارج کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ “امیر کے حکم کے خلاف کسی بھی ملک خصوصاً پاکستان میں لڑنا جائز نہیں۔” انہوں نے یہ انتباہ پولیس اہلکاروں کی پاسنگ آؤٹ تقریب سے خطاب کے دوران دیا۔ انہوں نے کہا کہ مختلف گروہوں میں شامل ہو کر بیرون ملک فساد کرنے والے مجاہد نہیں بلکہ فسادی ہیں۔ اس قسم کے حملے کرنے والے افراد کو مجاہد کہنا غلط ہے۔ جہاد کا اعلان کرنا یا اس کی اجازت دینا ریاستی امیر کا اختیار ہے، کسی گروہ یا فرد کا نہیں۔ اگر ریاستی قیادت پاکستان نہ جانے کا حکم دے چکی ہے تو اس کی حکم عدولی نافرمانی ہے۔ اپنی انا یا گروہی وابستگی کی بنیاد پر کیا گیا جہاد، شریعت کے مطابق فساد تصور کیا جائے گا۔

افغان حکومت کے ایک ذمہ دار فرد کی جانب سے یہ بیان خوش آئند ہے۔ اس سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ افغان طالبان پاکستان کا مبنی برحق مؤقف تسلیم کر کے جان چکے ہیں کہ پاکستان میں کالعدم تحریکِ طالبان یا اس قسم کے دیگر شرپسند گروہ جو کارروائیاں کر رہے ہیں، اس کا جہاد سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ بھارت سپانسرڈ دہشت گردی ہے اور بھارت کی پراکسی وار کا حصہ ہے۔

طالبان اور بی ایل اے سمیت دیگر شدت پسند تنظیمیں بھارتی آلہء کار بن کر پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے چیلنج بن چکی ہیں جن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے پاکستان کو کئی محاذوں پر متحرک رہنا پڑتا ہے۔

اس سلسلے میں چین کا کردار بھی مدبرانہ رہا۔ بھارت خطے کی سلامتی داؤ پر لگانے کے لیے توانائیاں صرف کر رہا ہے جبکہ پاکستان اور اس کے دوست ممالک خطے سمیت پوری دنیا میں امن کے خواہاں ہیں۔ اسی لیے چین نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ خطے میں قیامِ امن کی خاطر چین کا یہ کردار تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔

پاکستان اور افغانستان دونوں برادر اور ہمسایہ مسلم ملک ہیں۔ دونوں کے مسائل اور مشکلات میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں مشترکہ مفادات کے تحت جتنی جلد اپنے تعلقات بحال کریں گے اتنی ہی سرعت سے خطے میں امن قائم ہوگا اور عوام کی مشکلات میں کمی واقع ہوگی۔ دنیا بھر میں ہمسایہ ممالک تجارت کو فروغ دے کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہیں جبکہ یہ دونوں ممالک جنگ زدہ اور عدم استحکام کا شکار ہیں۔

کیا جنگ و جدل، خوں ریزی، بم، بارود، خودکش دھماکے ہی خطے کی عوام کا مقدر ہیں؟ بالکل نہیں۔ امن اور ترقی اس خطے کی عوام کا بھی حق ہے۔

فتنۃ الخوارج نے افغان حکومت کی جانب سے دیے گئے بیان اور جہاد پر مناظرے کا چیلنج دیا ہے۔ یہ لوگ جو پاکستان میں مساجد کو دھماکوں سے اُڑاتے ہیں، بازاروں میں معصوم شہریوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں، مسافر بسوں اور ریل گاڑیوں کو نشانہ بنا کر بےگناہ شہریوں کا خون بہاتے ہیں، ایک مسلمان ملک کے مسلمان سیکیورٹی اہلکاروں پر پشت سے وار کر کے حملے کرتے ہیں، اسکولوں اور کالجوں میں معصوم بچوں کو نشانہ بناتے ہیں — یہ کسی مناظرے میں ان حرکتوں کا دفاع کیسے کریں گے؟

بہرحال، پاک افغان تعلقات کی بحالی خوش آئند ہے۔ دونوں ممالک کو خلوصِ نیت سے آگے بڑھنا ہوگا تاکہ خطے میں دیرپا قیامِ امن کا خواب پورا ہو اور دونوں جانب کے لوگ مسائل سے چھٹکارا پائیں۔

وائس آف کے پی اور اسکی پالیسی کا لکھاری کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

پاک افغان تعلقات کی بحالی

Shopping Basket