Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Thursday, July 24, 2025

مخصوص نشستوں کا نظرثانی فیصلہ

وصال محمد خان
سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 12 جولائی 2024 کو کیا گیا فل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔ جس سے پی ٹی آئی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی ہے۔ 8 فروری 2024 انتخابات کے بعد مخصوص نشستوں کیلئے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا۔ ہائیکورٹ نے مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل کا مؤقف تسلیم نہیں کیا کیونکہ یہ صورتحال بالکل واضح اور غیر مبہم تھی کہ گزشتہ انتخابات کے دوران پی ٹی آئی سے انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے کی پاداش میں صرف انتخابی نشان واپس لیا گیا تھا، انتخابات میں اس کی شمولیت پر پابندی نہیں تھی۔ مگر پی ٹی آئی نے اپنے آزاد ارکان کو سنی اتحاد کونسل میں شامل کروایا، جس کا مطلب یہی لیا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کو سنی اتحاد کونسل میں ضم کر لیا گیا۔

دوسری جانب جس سنی اتحاد کونسل میں پی ٹی آئی کو ضم کیا گیا اس نے بذات خود انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی الیکشن کمیشن کے پاس مخصوص نشستوں کیلئے نام جمع کروائے۔ جس سے آئینی طور پر سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں تھی۔ مگر پی ٹی آئی بضد تھی کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دی جائیں چاہے اس نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا، اس کا ایک بھی ٹکٹ ہولڈر اسمبلی نہیں پہنچا، حتیٰ کہ اس کے سربراہ نے بھی آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا۔ اس صورتحال میں پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ بالکل درست اور قانون کے عین مطابق تھا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔

اس فیصلے کے خلاف سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جہاں حیرت انگیز طور پر اس کی سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دیا گیا جس نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست تو مسترد کر دی مگر مخصوص سمیت جنرل نشستیں بھی پی ٹی آئی کو دے دی۔ حالانکہ اس کیس میں پی ٹی آئی فریق ہی نہیں تھی۔ اپیل سنی اتحاد کونسل کی تھی جو مسترد کر دی گئی اور تمام ارکان کو پندرہ دن کا وقت دیا گیا کہ وہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لیں۔ جس پر ماہرین آئین و قانون نے تعجب کا اظہار کیا کہ ایک تو اس کیس میں جو جماعت درخواست گزار نہیں تھی اسے ریلیف فراہم کیا گیا، دوسرے آزاد ارکان کو آئین تین دن میں کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت کا پابند بناتا ہے مگر یہاں سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرنے والوں کو چھ ماہ بعد ایک اور موقع دیا گیا کہ وہ کسی جماعت میں پندرہ دن کے اندر شامل ہو جائیں۔ جسے آئین کو دوبارہ تحریر کرنا یا سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو پھیلانے سے تعبیر کیا گیا۔

اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دی گئی جسے 26ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے سننا تھا۔ آئینی بنچ طویل سماعتوں اور وکلا کے دلائل کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ پی ٹی آئی نے جان بوجھ کر آئینی تقاضوں سے انحراف کیا کیونکہ اس سے محض نشان واپس لیا گیا تھا، انتخابات میں حصہ لینے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ اس کے ارکان منتخب ہونے کے بعد اپنی ہی پارٹی میں شمولیت اختیار کر سکتے تھے، جیسا کہ 2021 سینیٹ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) سے نشان لیا گیا تھا مگر اس کے ارکان آزاد حیثیت سے کامیاب ہو کر اپنی جماعت کا حصہ بن گئے۔

مگر پی ٹی آئی نے حیرت انگیز طور پر اپنے ارکان کیلئے ایک دوسری جماعت کرایہ پر حاصل کر لی۔ تحریک انصاف بضد ہے کہ مخصوص نشستیں اس کا حق ہیں مگر اس کیلئے اس کے پاس کوئی دلیل یا آئینی جواز موجود نہیں۔ بس اس کی شدید خواہش ہے کہ مخصوص نشستیں اسے دی جائیں۔ اس کی خواہش تو یہ بھی ہے کہ گزشتہ انتخابات میں اس نے 180 نشستیں جیتی ہیں اور یہ تمام نشستیں اسے دی جائیں۔ مگر فیصلے خواہشوں پر نہیں، آئین کے تحت دئیے جاتے ہیں۔ نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ آئینی بنچ کے دئیے گئے فیصلے سے قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کو واضح طور پر دو تہائی اکثریت حاصل ہو چکی ہے جبکہ اس سے خیبرپختونخوا اسمبلی میں بھی دلچسپ صورتحال نے جنم لیا ہے۔

پختونخوا اسمبلی میں حکمران جماعت کو 93 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ 145 رکنی ایوان میں سادہ اکثریت کیلئے 73 ارکان درکار ہیں۔ پی ٹی آئی کو جن 93 ارکان کی حمایت حاصل ہے ان میں 58 کا تعلق اسی جماعت سے ہے جبکہ 35 ارکان اگرچہ اسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں سابق سپیکر، موجودہ ڈپٹی سپیکر، کئی وزرا، مشیر اور معاونین خصوصی بھی شامل ہیں، جو تحریک انصاف کے ساتھ دیرینہ وابستگی رکھتے ہیں۔

خیبرپختونخوا میں حکومت کی تبدیلی کے بارے میں افواہیں گرم ہیں مگر یہ تب ممکن ہے جب 35 آزاد ارکان حکومتی تعاون سے ہاتھ کھینچ لیں۔ اس صورت میں حکومت اپنی اکثریت کھو دے گی اور اگر یہی ارکان اپوزیشن سے جا ملتے ہیں تو اپوزیشن، جسے نظرثانی فیصلے سے قبل 27 ارکان کی حمایت حاصل تھی، اگر 21 خواتین اور 4 اقلیتی ارکان کی مخصوص نشستیں بھی اپوزیشن کو الاٹ کی جاتی ہیں تو اس کے حامی ارکان کی تعداد 52 تک پہنچ جائے گی، جسے حکومت سازی کیلئے مزید 21 ارکان درکار ہوں گے۔ 35 آزاد میں سے اگر 21 ارکان حکومت سے اپنا رشتہ ختم کرتے ہیں تو اس صورت میں علی امین گنڈاپور کی حکومت کا خاتمہ ممکن ہے۔

مگر نظر بظاہر تو اس کے امکانات خاصے کم ہیں کیونکہ 35 آزاد ارکان میں بیشتر تحریک انصاف کے نظریاتی ارکان سمجھے جاتے ہیں، ان میں سے کچھ مسلسل تیسری بار وزارت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ جن میں منسٹر ہائر ایجوکیشن مینا خان، سوات سے ڈاکٹر امجد اور فضل حکیم، نوشہرہ سے خلیق الرحمان، سابق سپیکر مشتاق غنی، ڈپٹی سپیکر ثریا بی بی اور اس طرح کے دیگر بہت سے ارکان ہیں، جن کے بارے میں دعوے سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ تحریک انصاف حکومت گرانے میں شامل ہوں گے۔

مگر اپوزیشن جماعتیں خصوصاً مسلم لیگ ن کے ڈاکٹر عباداللہ، جو صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ وہ حکومت گرانے کی پوزیشن میں آ چکے ہیں۔ اسی طرح جے یو آئی کے حوالے سے بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہ نئی حکومت کے اتحاد میں شامل ہونے کیلئے تیار ہے۔ اگر یہ تمام دعوے درست ثابت ہوتے ہیں تو علی امین گنڈاپور چند ہفتوں کے مہمان ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ پاکستانی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہو گا۔

اس کی ذمہ داری اگرچہ پی ٹی آئی قائدین وفاقی حکومت، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ پر ڈال رہی ہے مگر یہ کوتاہی اس کی اپنی ہے۔ اس کے پاس نہ ماہرین آئین موجود تھے، نہ سیاسی کھلاڑیوں کا ساتھ حاصل تھا، اور نہ ہی اس کے قائدین الیکشن رولز سے آگاہ تھے۔ اپنی کوتاہیوں کو دوسروں پر الزامات سے پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے، مگر اب پچھتاتے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

اس میں دو رائے نہیں کہ سپریم کورٹ آئینی بنچ کی جانب سے مخصوص نشستوں کا نظرثانی فیصلہ آئین کے عین مطابق ہے۔

وائس آف کے پی اور اسکی پالیسی کا لکھاری کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

مخصوص نشستوں کا نظرثانی فیصلہ

Shopping Basket