تعطل کے بعد مذاکرات کادوبارہ آغاز

پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں تعطل پیدا ہو چکا تھا۔ اس سے قبل حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے پی ٹی آئی کمیٹی سے ان کے مطالبات تحریری شکل میں مانگے تھے، جس پر تحریک انصاف کی قیادت گومگو کی کیفیت کا شکار ہو گئی تھی۔ انہیں یہ خدشہ لاحق تھا کہ مطالبات تحریری صورت میں دینے سے ان کی سبکی ہوگی اور یہ تحریری مطالبات سوشل میڈیا پر ان کے خلاف استعمال کیے جا سکتے ہیں، اس لیے تحریری مطالبات پر پس و پیش سے کام لیا جاتا رہا۔

مبینہ طور پر اسپیکر ایاز صادق کی جانب سے یقین دہانی پر پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی نے ایک مرتبہ پھر جیل میں عمران خان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی، جسے گزشتہ اتوار کو چھٹی کے روز پورا کیا گیا۔ اس ملاقات میں کمیٹی کو تحریری مطالبات پیش کرنے کی اجازت دے دی گئی، مگر شرط یہ عائد کی گئی کہ ان پر عمران خان کے بجائے مذاکراتی کمیٹی کے ارکان کے دستخط ہوں گے، جسے حکومت نے قبول کر لیا۔ حکومت شروع سے ہی مذاکرات کی خواہاں تھی، مگر اسے یہ خدشہ لاحق تھا کہ مذاکرات میں ہونے والی پیشرفت پر عمران خان کی جانب سے عمل درآمد کے لیے ضامن کی ضرورت ہوگی۔

حکومتی مؤقف مبنی برحق تھا کیونکہ اگر حکومت اور اپوزیشن مذاکرات میں معاملات طے پا جائیں اور عمران خان اس پر عمل درآمد نہ کریں تو یہ مذاکرات مشقِ لاحاصل کے سوا کچھ نہیں ہوں گے۔ حکومت اور اپوزیشن مذاکرات کا باقاعدہ آغاز تحریک انصاف کی جانب سے ہوا تھا جب عمران خان نے گزشتہ ماہ پارٹی قائدین پر مشتمل ایک کمیٹی کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ کمیٹی حکومت سے مذاکرات کرے گی۔ اس سے قبل عمران خان اور ان کی پارٹی کا مؤقف تھا کہ وہ مذاکرات صرف فوجی قیادت سے کریں گے، جبکہ فوجی قیادت کا مؤقف تھا کہ مذاکرات سیاسی قوتوں کے درمیان ہوتے ہیں اور فوج کا سیاسی مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

فوجی قیادت کا یہ مؤقف درست تھا کہ مذاکرات ہمیشہ سیاستدانوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ فوج کے پاس ایسا کوئی آئینی اختیار نہیں کہ وہ کسی سیاسی جماعت سے مذاکرات کرے اور ان کے مطالبات پر عمل درآمد کروائے۔ اس قسم کے اختیارات حکومت وقت کو میسر ہوتے ہیں، وہی کسی سیاسی جماعت یا اس کے رہنماؤں سے مذاکرات کرنے اور طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ مگر تحریک انصاف چونکہ خود کو “انوکھا لاڈلا” سمجھ رہی ہے، اس لیے اس کی قیادت کا اصرار تھا کہ وہ مذاکرات فوج سے ہی کرے گی۔

فوجی قیادت کی جانب سے انکار کے بعد تحریک انصاف حکومت سے مذاکرات پر آمادہ ہوئی اور یکطرفہ کمیٹی بھی بنا دی، حالانکہ مذاکرات کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ دونوں جانب سے آمادگی کا اظہار ہو اور دونوں جانب سے اس مقصد کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔ عمران خان نے جیل سے یکطرفہ طور پر مذاکراتی کمیٹی بنا دی اور اس کے ساتھ دھمکی بھی لگا دی کہ اگر چار دن تک مذاکرات نہ ہوئے تو مذاکرات ختم سمجھے جائیں گے اور ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ترسیلات زر بھیجنے سے روک دیں گے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانی جو رقوم بھیجتے ہیں، یہ نہ حکومت کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہیں اور نہ ہی فوج کو اس کا کوئی فائدہ ملتا ہے بلکہ اس سے ملکی معیشت کو سہارا ملتا ہے۔ معیشت کسی ایک جماعت کی نہیں بلکہ پورے ملک کی ہے۔ اس قسم کی اپیل دشمنی کے مترادف ہے اور یہ واضح طور پر ملک اور قوم کے مفادات کے خلاف ہے۔

حکومت نے تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنا دی، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت ملک میں سیاسی عدم استحکام ختم کرنے کی خواہاں ہے۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی نے عمران خان سے ملاقات کی شرط عائد کی، جسے حکومت نے چھٹی کے دن بھی پورا کیا۔ اب جبکہ مذاکرات کے لیے ماحول سازگار ہو چکا ہے، قوم تحریک انصاف سے سنجیدگی کی توقع رکھتی ہے کہ وہ ان مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے خلوص کا مظاہرہ کرے گی اور ایسی شرائط عائد نہیں کرے گی جو حکومت کے بس سے باہر ہوں۔

تحریک انصاف کی جانب سے پہلی شرط اسیران کی رہائی ہے، جو کہ عدالتی معاملہ ہے۔ مزید برآں، 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن کے مطالبات غیرضروری ہیں کیونکہ ان واقعات کی حقیقت سب پر عیاں ہے۔ اب جبکہ مذاکرات دوبارہ شروع ہونے والے ہیں، ضروری ہے کہ تحریک انصاف خود کو ماورائی مخلوق سمجھنے کے بجائے ملک کے شہری سمجھے اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ امید ہے کہ 15 جنوری سے شروع ہونے والے مذاکرات میں دونوں جانب سے خلوص، تدبر، دانشمندی اور مثبت سیاسی رویوں کا مظاہرہ کیا جائے گا تاکہ ملک کو استحکام نصیب ہو اور یہ ترقی کی جانب گامزن ہو۔

وصال محمد خان

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket