خیبرپختونخوا میں دہشت گردی اور سیاست زدہ بیانیئے
خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کا مسئلہ دیگر تمام مسائل پر غالب آ چکا ہے۔ باجوڑ، تیراہ، وزیرستان، بنوں اور دیگر علاقوں میں امن و امان کی بدترین صورتحال نے حکومت کو بھی حرکت میں آنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اسی لیے وزیرِاعلیٰ نے قبائلی عمائدین کے ساتھ جرگوں کا سلسلہ شروع کیا ہے، اور تادمِ تحریر وزیرِ اعلیٰ ہاؤس میں تین جرگے منعقد ہو چکے ہیں۔ مقامی جرگوں کے بعد ایک گرینڈ جرگہ منعقد کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
جرگوں کے ذریعے امن کے قیام کے امکانات پر مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں، لیکن وزیرِاعلیٰ پُرعزم ہیں کہ امن انہی جرگوں کے ذریعے قائم ہوگا۔ باجوڑ میں مقامی عمائدین کی جانب سے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کی کوششیں اب تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکیں۔ اگرچہ یہ نعرہ خوش کن ہے، مگر 2009-10 میں بھی ایسے ہی جرگے ناکام ہو چکے ہیں۔
سال 2008 کے انتخابات میں اے این پی نے بھی جرگوں کے ذریعے امن قائم کرنے کی کوشش کی تھی، جو ناکام رہی۔ اب موجودہ حکومت ایک مرتبہ پھر اسی فارمولے کو آزمانے کی کوشش کر رہی ہے۔ وزیرستان کے عمائدین، سیاسی رہنماؤں اور ارکانِ پارلیمان پر مشتمل حالیہ جرگے نے اس اقدام کو سراہتے ہوئے امن کو بنیادی ضرورت قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی افغانستان سے مذاکرات کے لیے ایک وسیع تر جرگے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
صوبائی حکومت اور وزیرِاعلیٰ افغانستان کے ساتھ مذاکرات میں شمولیت کے خواہاں ہیں، مگر وفاق اور اپوزیشن جماعتیں ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ پی ٹی آئی کی گزشتہ حکومت نے کالعدم ٹی ٹی پی کے افراد کو یہاں لاکر آباد کیا اور جیلوں سے رہا بھی کیا، جنہوں نے دوبارہ دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کیں۔
عمران خان نے وزیرِاعلیٰ کو کسی بھی آپریشن کی اجازت نہ دینے کی ہدایت دی ہے۔ وزیرِاعلیٰ اور اپوزیشن کی کچھ جماعتوں کی جانب سے فوجی آپریشن کی شدید مخالفت یہ تاثر دیتی ہے جیسے فوج خود آپریشن کی خواہش مند ہو۔ حالانکہ فوج اس وقت متحرک ہوتی ہے جب سول انتظامیہ ناکام ہو جائے۔ بدقسمتی سے دہشت گردی کا مسئلہ سیاست کی نذر ہو چکا ہے، اور قیادت کی جانب سے متضاد بیانات معاملے کو مزید الجھا رہے ہیں۔
تحریکِ رہائی بانی پی ٹی آئی ضلعی سطح تک آ گیا
حکمران جماعت نے 5 اگست تک بانی کی رہائی کی تحریک کو عروج پر پہنچانے کے دعوے کیے تھے، مگر بعد میں یہ صرف ضلعی سطح کے احتجاج تک محدود ہو گئی۔ کئی اضلاع میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ وزیرِاعلیٰ کی قیادت میں حیات آباد ٹول پلازہ سے قلعہ بالا حصار تک ریلی پانچ گھنٹے میں پہنچی۔ ریلی میں پشاور اور خیبر کے جلوس بھی شامل ہوئے۔
قلعہ بالا حصار پر وزیرِاعلیٰ کے مختصر خطاب کے بعد کارکنوں نے مایوسی کا اظہار کیا اور ان کے خلاف نعرے بازی کی۔ بانی پی ٹی آئی کی طرف سے علی امین گنڈاپور کو استعفیٰ دینے کا مشورہ سامنے آیا، جس پر مختلف تبصرے ہو رہے ہیں۔ وزیرِاعلیٰ کا مؤقف ہے کہ یہ مشورہ غلط طور پر ان سے منسوب کیا جا رہا ہے اور وہ عہدے کو بانی کی امانت سمجھتے ہیں۔
اے این پی کا امن مارچ: 23 اگست کو اسلام آباد کی جانب پیش قدمی
عوامی نیشنل پارٹی نے 26 جولائی کو منعقدہ جرگے کی روشنی میں 23 اگست کو سفید جھنڈوں کے ساتھ اسلام آباد کی جانب امن مارچ کا اعلان کیا ہے۔ میاں افتخار حسین کے مطابق مارچ کا آغاز صبح 10 بجے صوابی انٹرچینج سے ہوگا۔ مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ پختون قوم امن کی داعی ہے اور وہ مزید جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
مارچ کی منصوبہ بندی کیلئے بلائے گئے اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، قومی وطن پارٹی، جماعت اسلامی، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ، پختونخوا نیشنل عوامی پارٹی، پاکستان مزدور کسان پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، عوامی ورکر پارٹی اور جے یو آئی (ف) کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ اسلام آباد مارچ کیلئے تیاریاں جاری ہیں، مگر ابھی تک یہ واضح نہیں کیا گیا کہ اسلام آباد میں مارچ کا پڑاؤ کہاں ہوگا اور کیا وفاقی حکومت انہیں داخلے کی اجازت دے گی؟
ضلع کرم میں 9 ماہ بعد جزوی بحالی: امید کی کرن
قبائلی ضلع کرم کا دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ 9 ماہ بعد بحال ہو گیا ہے۔ اکتوبر 2024ء میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے باعث بند کی گئی مرکزی شاہراہ اب سیکیورٹی پروٹوکول کے تحت جزوی طور پر کھولی گئی ہے۔ پاراچنار کے شہریوں کو جزوی ریلیف ملا ہے اور روزانہ دو درجن مسافر گاڑیاں سفر کر رہی ہیں۔
مرکزی شاہراہ صبح 9 بجے سے سہ پہر 3 بجے تک کھولی جاتی ہے، جبکہ مال بردار گاڑیاں متبادل راستے سے گزرتی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ اور مقامی عمائدین کے درمیان رابطے جاری ہیں، اور امید کی جا رہی ہے کہ جلد ہی شاہراہ کو 24 گھنٹے کے لیے کھول دیا جائے گا۔ یہ پیش رفت علاقے میں امن و امان کی بہتری کی جانب اشارہ ہے۔