نئے امریکی صدرسے دنیاکے امن پسندوں کوتوقع تھی کہ انکے انتخاب سے دنیاامن کاگہوارابن جائیگا۔ انہوں نے حلف لینے سے قبل چینی صدرسے ٹیلی فونک گفتگومیں اس عزم کااظہاربھی کیاتھاکہ‘‘ امریکہ اورچین مل کردنیاکوپہلے سے زیادہ پرامن بنائیں گے’’۔مگرباقاعدہ ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعدانکی جانب سے غزہ کے باسیوں کیلئے جوبیان سامنے آیاہے اس سے امت مسلمہ میں تشویش کی لہردوڑچکی ہے ۔ صدرٹرمپ کاکہناہے کہ انکی اردن کے بادشاہ سے بات ہوچکی ہے اوروہ بہت جلد مصرکے صدرسے بھی بات کرینگے تاکہ غزہ کے باسیوں کو ان ممالک میں آبادکیاجائے ۔ صدرٹرمپ کے اس بیان پرغزہ کے شہریوں اورحماس نے سخت ردعمل ظاہرکیاہے جبکہ اسرائیلی وزرانے اس کاخیرمقدم کیاہے۔
اسرائیل کیساتھ صدرٹرمپ کی محبت تواظہرمن الشمس تھی مگرانتخابی مہم کے دوران انہوں نے نعرہ دیاتھاکہ وہ دنیامیں جنگوں کاخاتمہ کرینگے اورجہاں بھی کسی جنگ میں امریکہ ملوث ہے اسے ان جنگوں سے نکالاجائیگا۔انکے اس بیانئے کوامریکی مسلم ووٹرز سمیت پوری دنیاکے مسلمانوں میں پذیرائی حاصل ہوئی کیونکہ مسلمان سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کی پشت پرامریکہ نہ ہوتواسے فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے کی جرات نہیں ہوسکتی ۔اس سے قبل صدرجوبائیڈن نے جاتے جاتے اسرائیل اورحماس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ کروایاجسے صدرٹرمپ نے اپناکارنامہ قراردیااورکہاکہ ‘‘ عہدہ سنبھالنے سے قبل ہی میری پالیسیوں پرعملدرآمدشروع ہوچکاہے ’’۔ مگرحال ہی میں انکا غزہ کے شہریوں کے حوالے سے دیاگیابیان فلسطینیوں ،حماس اورپوری امت مسلمہ کیلئے تشویش کاباعث بناہے۔
صدرٹرمپ اگرچہ سخت گیرپالیسیوں کیلئے شہرت رکھتے ہیں اورامریکہ پرانحصارکرنے والوں یاامریکی امدادپرپلنے والے ممالک کووہ سخت ناپسند کرتے ہیں اوران کاخیال ہے کہ امریکی وسائل پرامریکی عوام کاحق ہے ۔مگردیگرصدورکی طرح صدرٹرمپ بھی اسرائیل کیلئے نہ صرف نرم گوشہ رکھتے ہیں بلکہ انکے حالیہ منصوبے سے ظاہرہورہاہے کہ وہ دیگرامریکی صدورکے مقابلے میں زیادہ اسرائیل نوازہیں ۔انہوں نے غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کامنصوبہ پیش کردیاہے ۔غزہ کی پٹی کوتباہ شدہ قراردیکروہاں صفائی کی تجویزدیتے ہوئے صدرٹرمپ نے اردن اورمصرسے فلسطینیوں کواپنے ہاں آبادکرنے کامطالبہ کردیاہے۔امریکی صدرنے کہاکہ وہ عرب ممالک کے تعاون سے فلسطینیوں کیلئے مستقل یاعارضی طورپرنئی رہائشگاہیں بناناچاہتے ہیں۔
امریکی صدرکے اس منصوبے کوفلسطینیوں نے مذموم منصوبہ قراردیاہے جس سے فلسطینیوں کیلئے خدشات میں مزیداضافہ ہوگیاہے۔فلسطینیوں نے مسلسل حملوں اورجانی ومالی نقصانات کے باوجودہمیشہ اپنی سرزمین چھوڑنے کی تجاویز کومستردکیاہے۔فلسطینیوں کے اس عزم سے ظاہرہے کہ وہ اپنی دھرتی کیلئے مزیدقربانیاں دینے سے نہیں کترائیں گے ۔مگرصدر ٹر مپ کو حقائق مدنظررکھتے ہوئے اپنے بیان یاپالیسی پرنظرثانی کی ضرورت ہے کیونکہ فلسطینی عوام کئی عشروں سے اسرائیلی مظالم کاشکارہیں اس دوران لاکھوں فلسطینی جام شہادت نوش کرچکے ہیں اوردربدری کی زندگی گزارنے پرمجبورہیں مگردھرتی کی محبت انہیں کہیں اورجانے سے روکے رکھتی ہے اسلئے وہ پناہ گزیں کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزاررہے ہیں ،موسم کی شدت برداشت کررہے ہیں اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھارہے ہیں مگراپنی زمین چھوڑ کرکہیں اورجانے پرتیارنظرنہیں آرہے۔
ایک جانب اسرائیل نے امریکی آشیربادسے فلسطینیوں پرزمین تنگ کردی ہے انکے گھروں پر بمباری ہورہی ہے ،سکول اورہسپتالوں تک کوبربریت کانشانہ بنایاجارہاہے جہاں لاکھوں پرامن اورمعصوم شہری جاں بحق ہوگئے ہیں جن میں بچے ،بزرگ اورخواتین کوبھی نشانہ بنانے سے اجتناب نہیں برتاگیا اوریہ نارواسلسلہ گزشتہ آٹھ عشروں سے جاری ہے ۔فلسطینیوں کی اپنے وطن سے بے دخلی تو اسرائیل کی دیرینہ آرزوہے اسرائیل کی توخواہش یہی ہے کہ فلسطینی اپنی سرزمین چھوڑکرکسی اورعرب ملک میں چلے جائیں تاکہ انکی چھوڑی گئی زمین پراسرائیل نئی یہودی بستیاں بساسکے اوران کاناجائزقبضہ مزیدپختہ ہو۔ مگرصدرٹرمپ کایہ مذموم منصوبہ فلسطینیوں کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتاصدرٹرمپ اگرچہ سرمایہ دارہیں اوروہ سونے کاچمچ لیکرپیداہوئے ہیں مگرانہیں وطن کی محبت کااندازہ ضرورہوناچاہئے۔
فلسطینیوں کی اپنی سرزمین سے بیدخلی سے دنیامیں ایک نئی روایت قائم ہوجائیگی کہ جس کاجی چاہے وہ کسی کمزورہمسایہ ملک پربمباری کرکے وہاں کے شہری آبادی کوملیامیٹ کردے ،شہریوں کودربدرکردے اوراسکے بعد صدر ٹرمپ جیساکوئی ‘انقلابی’ بے دخل کئے گئے شہریوں کیلئے کسی دوسرے ملک میں پناہ کامنصوبہ پیش کرینگے ۔صدرٹرمپ کے اس منصوبے سے یہی ظاہرہورہاہے کہ وہ دنیاکوپرامن بنانے کے جودعوے کررہے ہیں وہ خالی خولی دعوے ہیں بلکہ وہ دیگرامریکی صدورسے دوقدم آگے بڑھکرفلسطینیوں کوانکی سرزمین سے بے دخل کرنے کے خواہاں ہیں۔
ان کایہ منصوبہ فلسطینیوں اورخطے سمیت پوری امت مسلمہ کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتااوریہ منصوبہ متمدن دنیا کے منہ پرطمانچے کے مترادف سمجھاجارہا ہے ۔صدرٹرمپ کواپنے خیالات اورپالیسیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ انہیں ادراک ہوناچاہئے کہ فلسطینی اپنے وطن کے مالک ہیں اوروہ کسی طاقتورکی دھونس دھمکی سے اپنی سرزمین چھوڑنے پرآمادہ نہیں ۔صدرٹرمپ کواگراسرائیل فلسطین معاملے سے دلچسپی ہے اوروہ اسے حل کرناچاہتے ہیں تواس کاایک سادہ ساحل اقوام متحدہ پیش کرچکی ہے۔
صدرٹرمپ کودوریاستی حل پرعملدرآمد کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔مسئلہ فلسطین کادوریاستی حل کے سواکوئی بھی مصنوعی حل دیرپااورپائیدارنہیں ہوسکتااورنہ ہی کوئی اورحل موجودہے۔ جوحل صدرٹرمپ نے پیش کیاہے یہ ناقابل عمل ہے اور اس سے دنیامیں ‘‘جس کی لاٹھی اسکی بھینس’’ کاقانون رائج ہونے کاخطرہ ہے ۔لہٰذاضرورت اس امرکی ہے کہ صدرٹرمپ سنجیدگی کامظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کوبھاری ہتھیاروں کی فروخت اورفراہمی پرپابندی عائدکردیں ،اسے فلسطین پرمزیدمظالم ڈھانے سے روکے اور دوریاستی حل پرآمادہ کریں۔
یہی وہ اقدام ہوگاجس سے صدرٹرمپ تاریخ میں امرہوسکتے ہیں ۔فلسطینیوں کی اپنی سرزمین سے بے دخلی سے بدامنی کے نئے درواہونگے اورمشرق وسطیٰ بارودکاوہ ڈھیربن جائیگاجسے کوئی معمولی سی چنگاری دہکتے ہوئے الاؤمیں بدل سکتی ہے۔
وصال محمد خان