Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Friday, September 19, 2025

انڈہ کاری سے انڈہ ماری تک کاسفر

وصال محمدخان
جمہوری طرزحکومت کایہ فائدہ ضرورہے کہ اس سے انتقال اقتدارکامرحلہ پرامن طورپرانجام پاتاہے مگراس نظام پرگھس بیٹھیوں کے قبضے سے یہ بدنام ہورہاہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ کاجائزہ لیاجائے توجب تک ملک میں کوئی باقاعدہ نظام ِحکومت موجودنہیں تھاتب تک جس کی لاٹھی اسکی بھینس والاقانون رائج تھامگرجب1973ء میں ملک کوایک متفقہ آئین دیاگیاتو سب سے پہلے آئین کاخالق ذوالفقار علی بھٹوڈکٹیٹربن کرابھرا۔انکی دورِحکومت میں اگرچہ ملک نے بہت سے اہداف حاصل کئے مگرخودپسندی کے سبب سیاسی رواداری کا خاتمہ ہوا۔جس کے نتیجے میں سیاسی مخالفین کوبھینس چوری جیسے الزامات سے ذلیل ورسواکیاگیا۔نوے کی دہائی میں بینظیربھٹو اور نواز شر یف کے درمیان سیاسی محاذآرائی نے ملک کوناقابل تلافی نقصان سے دوچارکیا۔ان دونوں کوجب احساس ہواکہ انکی لڑائی میں کسی کی دُم اورکسی کی چونچ گم ہوجاتی ہے مگراس سے ملک وقوم کاکوئی فائدہ نہیں توانہوں نے میثاق جمہوریت نامی معاہدہ کیا۔جس پراگرصدق دل سے عمل کیا جائے توسیاسی محاذآرائی اورعدم استحکام کاخاتمہ ممکن ہے۔اگریہ دونوں سیاسی جماعتیں معاہدے پر عملدر آمد جاری رکھتیں تو یقیناًملک میں جمہوریت مضبوط ہوتی اورسیاسی استحکام ہوتا۔مگران دونوں کے درمیان ایک تیسری جماعت نے جنم لیاجس نے اقتدارکی حصول کیلئے تمام حربے آزمائے بلکہ اسے عوامی پذیرائی بھی اسی سبب ملی کہ اس نے دیگر تمام سیاسی قوتوں کی مخالفت کاعلم بلندکیا۔بات اگرمحض مخالفت تک رہتی توکوئی مضائقہ نہیں تھامگرچونکہ یہ جماعت اوراسکے قائدسیاسی اسراورموزسے نابلدتھے اسلئے انہوں نے سیاست میں ہراس چیز کو داخل کیاجواس سے قبل معیوب سمجھی جاتی تھی۔اسی جماعت نے اپنے پرستاروں یاووٹرز سپورٹرز کو شعور کے نام پریہ سبق دیاکہ وہ کسی بھی سیاسی راہنما کی بے عزتی کرنے میں آزادہیں،پبلک مقامات پرکسی کے خلاف بھی نعرے بازی جائز اور ان کاحق ہے اوراس سلسلے میں کسی خاتون کوبھی معاف مت کرو،مسجدنبویﷺکاتقدس پامال کرنے سے بھی مت چوکو،کسی کے منہ پر بھری محفل میں کیمروں کے سامنے سیاہی پھینکو، جوتے،انڈے اورٹماٹر مارویاگولی ماردو۔یہ سیاست پاکستان میں بانی پی ٹی آئی اورانکے پرستاروں نے پروان چڑھائی ہے۔اس سے قبل بینظیربھٹواورنوازشریف نے بھی ایکدوسرے کوخوب لتاڑامگرانہیں جلدہی احساس ہواکہ یہ طرزِسیاست ملکی مفادمیں نہیں اسلئے انہوں نے جلد ہی اپنے روئیوں پرنظرثانی کردی مگرپی ٹی آئی کے پاس چونکہ کوئی نظریہ،کوئی کارکر د گی یااہلیت موجودنہیں اسلئے اس جماعت کی سیا ست کاسارادارومداردوسروں کی ہتک پرہے۔ان سے اگردورِحکومت میں کسی کارکردگی بارے سوال کیاجائے توان کاجواب ہوتاہے کہ یوسف رضاگیلانی نے اپنے دورمیں یہ کیاتھا،پرویزاشرف نے وہ کیاتھا،نوازشریف نے ایساکیاتھااورشہبازشریف ویساکررہاہے یہ دنیاکے تمام وزیراعظموں کے بارے میں خودساختہ قصے کہانیاں سنادینگے مرجائینگے مگراپنی کارکر د گی کاجواب نہیں دینگے۔جب کسی سیاسی جماعت کی تمام سیاست کادارومداردوسروں کی ہتک،تذلیل اوررسوائی پرہوتواس نے وہی وطیرہ جاری رکھنابلکہ رکھتے رہناہے۔وطن عزیزمیں جس غلط سلط سیاست کوعمران خان اوراسکی جماعت نے فروغ دیاہے اب یہ روایات انکے منہ پرآرہی ہیں آسمان پرتھوکااپنے منہ پرآنے کا تو سب نے سناہے اب دوسروں پرتھوکنے والے اپنے ہی تھوکے ہوئے کا نشانہ بن رہے ہیں۔شیخ رشیدپرلاہورریلوے سٹیشن میں جوتاپھینکنے کاواقعہ توسب کویادہوگا۔اسی طرح بہت سے راہنماؤں کومختلف طریقوں سے ہتک وتضحیک کانشانہ بنایاگیامگرحالیہ حملہ عمران خان کی بہن علیمہ خان پرہواہے جن پراڈیالہ جیل کے باہرانڈے پھینکے گئے ان میں سے ایک انڈہ توسیدھاانکے منہ پرلگاجبکہ دوسرازمین پرگرگیا۔مبینہ طورپرانڈے پھینکنے والی دوخواتین کوگرفتارکیاجاچکاہے جن کاتعلق پی ٹی آئی سے بتایاجارہاہے۔جس کاواضح مطلب یہی ہے کہ پی ٹی آئی کارکنان اب جبکہ دوسروں کی ہتک اورتضحیک کرنے سے معذورہوچکے ہیں کیونکہ ان اوچھی حرکات کانتیجہ براہی نکلتاہے اسلئے اب تضحیک کے اس سلسلے کانشانہ انہوں نے اپنے قائدین کوبناناشروع کردیاہے۔ایک حلقے کایہ بھی کہناہے کہ علیمہ خان کومقبول بنانے کیلئے یہ ڈرامہ خودہی رچایاگیااگرایساکیاگیاہے تومزیدبراہے۔سیاست کیلئے اس حدتک پستی میں جاناناقابل یقین ہے۔علیمہ خان سے صحافی کاسوال پوچھنااورجواب کی بجائے اسے گالم گلوچ اورتشددکانشانہ بناناپاکستانی سیاست میں ایک مزیدغلط روایت کاآغازہے۔صحافیوں کوان لوگوں کی کوریج کامکمل بائیکاٹ کرناچاہئے یہ اس قابل نہیں کہ انکی حرکات وسکنات عوام تک پہنچائی جائے۔یہ توقع تونہیں کی جاسکتی کہ یہ ڈرامہ انہوں نے ازخودرچایاہوگامگر سیاسی نابالغوں سے کوئی بھی حرکت سرزدہونااچنبھانہیں یہ لوگ سیاست چمکانے کیلئے کوئی بھی قدم لے سکتے ہیں اورکسی بھی حدتک جاسکتے ہیں۔اس جماعت نے سیاسی مفادکیلئے ملک دشمنی سے بھی گریز نہیں کیا۔امریکہ پرخودساختہ سائفرکاالزام لگا کر ملکی سفارتکاری کوناقابل تلافی نقصان پہنچایاگیا،آئی ایم ایف کوخط لکھ کر تعاون سے روکنے کی کوشش کی گئی،حتیٰ کہ پاک بھارت جنگ کے دوران بھارتی بولی بولنے میں بھی حرج نہیں سمجھاگیا۔ ملک دشمنی کویہ جماعت انقلاب سمجھ بیٹھی ہے انکے خیال میں پاکستان کے دشمن نمبرون بھارت کی بولی بولنااورنریندرمودی کے ہاں میں ہاں ملاناانقلاب ہے۔ کبھی یہ دہشتگردوں کے خلاف فوجی آپریشن کوہدف تنقید بناتے ہیں اوراس پرسیاست کھیلتے ہیں توکبھی فوج کے خلاف دورانِ جنگ بیانئے پروان چڑھاکریہ خودساختہ انقلابی بن جاتے ہیں۔ان تمام حربوں کی ناکامی پریہ خودکوانڈے مرواتے ہیں تاکہ دنیامیں خبریں بن جائیں۔یہ لوگ خبریں بنوانے کیلئے دیوانگی کی حدپارکرچکے ہیں۔انڈہ کاری ایک لذیذسالن ہے جوراقم کوخاصامرغوب ہے۔ اورعلیمہ خان توچونکہ خاتون خانہ ہیں انہیں انڈہ کاری بنانے کابھی یقیناًتجربہ ہوگا۔مگراب بات انڈہ کاری سے انڈہ ماری تک پہنچ چکی ہے۔حکومت کوتحقیقات کرکے ملزمان کیفرکردارتک پہنچاناچاہئے انڈہ کاری سے انڈہ ماری کاسفرجمہوریت کیلئے نقصان دہ ہے۔ واقعہ پی ٹی آئی قائد ین کیلئے پیغام ہے کہ انکی سیاست اب اپنے کارکنوں کیلئے بھی قابل قبول نہیں اسلئے توخواتین جوانڈہ کاری کاسالن بنانے کی ماہرہوتی ہیں انہوں نے انڈہ ماری کاسلسلہ شروع کردیاہے۔یہ سلسلہ درازنہ ہونے کی دعاہی کی جاسکتی ہے۔

وائس آف کے پی اور اسکی پالیسی کا لکھاری کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

انڈہ کاری سے انڈہ ماری تک کاسفر

Shopping Basket