Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, June 14, 2025

عید کی خوشیاں اور ہماری زمینی حقیقتیں-خیبرپختونخواراؤنڈاَپ

عید، اگرچہ خوشیوں اور مسرتوں کا پیغام لاتی ہے، لیکن ہمارے ہاں ہر برس اس مبارک موقع پر جان لیوا حادثات میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں حسبِ روایت عیدالاضحیٰ کے تین دنوں کے دوران مختلف حادثات میں 55 افراد جاں بحق اور 50 زخمی ہوئے۔ ڈائریکٹر جنرل ریسکیو 1122 کے مطابق ان تین دنوں میں 1999 ہنگامی واقعات میں امدادی خدمات فراہم کی گئیں، جبکہ 1897 افراد کو ابتدائی طبی امداد دی گئی۔ 1400 میڈیکل ایمرجنسیز میں مریضوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا، 349 ٹریفک حادثات ہوئے، اور دریاؤں و نہروں میں ڈوبنے کے 6 واقعات رپورٹ ہوئے۔

عید کے موقع پر حکومتی دعوؤں کے باوجود، بجلی کی لوڈشیڈنگ کا اذیت ناک سلسلہ جاری رہا۔ صوبائی دارالحکومت سمیت کئی اضلاع میں روزانہ 20 گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ کی گئی، جس پر تنگ آئے شہریوں نے مردان، نوشہرہ اور دیگر علاقوں میں عید کے دنوں میں بھی احتجاج کیا۔ مہنگائی کے سبب اس بار قربانی میں 30 فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی، جبکہ طویل اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باعث گوشت خراب ہونے کی شکایات بھی سامنے آئیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزارتِ توانائی خیبرپختونخوا میں بجلی کی ظالمانہ بندش کا فوری نوٹس لیں۔ بجلی چوری اور لائن لاسز کے حوالے سے صرف پیسکو کی رپورٹوں پر انحصار کرنے کے بجائے، وفاقی حکومت کو خود زمینی حقائق کا جائزہ لینا ہوگا۔ ایمانداری سے بل ادا کرنے والے صارفین پیسکو کی نااہلی اور بجلی چوروں کے درمیان پس رہے ہیں، جس سے عوام میں وفاق کے خلاف بداعتمادی جنم لے رہی ہے۔

اسی دوران، عید کے دن سے ہی صوبے کو شدید گرمی کی لہر نے لپیٹ میں لے رکھا ہے، اور درجہ حرارت دن کے اوقات میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے۔ محکمہ موسمیات نے رواں ہفتے بارشوں کی پیش گوئی کی ہے، جو کسی حد تک راحت کا باعث بن سکتی ہے۔

گورنر فیصل کریم کنڈی نے عید اپنے آبائی علاقے ڈیرہ اسماعیل خان میں منائی اور پیسکو کو وہاں پانچ روز تک لوڈشیڈنگ نہ کرنے کی ہدایت جاری کی، جس پر سوشل میڈیا پر سخت تنقید کی گئی۔ بعد ازاں، محسود قبائلی جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے گورنر نے صوبائی حکومت پر الزام عائد کیا کہ اس نے ضم شدہ اضلاع کے سات سو ارب روپے پر شب خون مارا ہے۔ ان کے بقول، انضمام کے وقت وفاق نے ہر سال سات سو ارب روپے دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن سرتاج عزیز کمیشن کی سفارشات کے باوجود یہ وعدہ وفا نہ ہو سکا۔

دوسری طرف وزیراعلیٰ نے عید کے تیسرے روز اپنے حلقے میں عوامی ملاقاتیں کیں اور مختلف شکایات پر موقع پر احکامات بھی جاری کیے۔ ان کا بیان کہ “ہماری حکومت اتنی مستحکم ہو چکی ہے کہ اب ہم وفاق کو قرض دینے کے قابل ہیں”، زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ صوبے کا سالانہ بجٹ تقریباً 2070 ارب روپے (یعنی ساڑھے چھ ارب ڈالرز) ہے، اور اگر اس میں سے دو ارب ڈالر وفاق کو قرض دیے جائیں تو صوبہ کیسے چلے گا؟ خود وزیراعلیٰ چند ہفتے قبل ہی وفاق سے واجبات کی عدم ادائیگی پر گلہ شکوہ کر رہے تھے۔

خیبرپختونخوا کی مالی حالت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ صوبہ اپنے وسائل سے صرف سات فیصد ریونیو اکٹھا کرتا ہے، جبکہ باقی 93 فیصد انحصار وفاقی مدد پر ہے۔ ایک سال سے صوبہ شدید مالی بحران کا شکار ہے، کئی جامعات دیوالیہ ہو چکی ہیں یا قریب ہیں، سرکاری سکولوں کے بچوں کو مفت کتب کی فراہمی بھی معطل ہے، اور والدین اساتذہ کمیٹیوں کو ڈیڑھ سال سے کوئی فنڈ نہیں دیا گیا۔

صوبائی حکومت کی “خود کفالت” کی باتیں اس پس منظر میں بے بنیاد دکھائی دیتی ہیں۔ کرپشن اور اقربا پروری نے اداروں کو مفلوج کر دیا ہے۔ خود حکومتی پارٹی کے وزراء ایک دوسرے پر بدعنوانی کے الزامات لگا رہے ہیں، یہاں تک کہ اسپیکر صوبائی اسمبلی بھی اس دائرے میں آ چکے ہیں، جنہیں پارٹی کی “گڈ گورننس کمیٹی” نے کلین چٹ دی ہے—حالانکہ الزامات خود پارٹی رہنماؤں نے عائد کیے تھے۔

ترقیاتی منصوبے، خصوصاً پشاور-ڈی آئی خان موٹروے، تعطل کا شکار ہیں۔ اگر واقعی صوبائی حکومت کے پاس قارون کا خزانہ آ چکا ہے تو اسے عوام پر خرچ کیا جانا چاہیے، نہ کہ سیاسی بڑھکوں اور وفاق سے حساب چکانے میں۔

جہاں تک اسلام آباد میں “گولی کا جواب گولی” دینے کی دھمکی کا تعلق ہے، وزیراعلیٰ کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ ماضی میں بھی ڈی چوک کے مظاہرے کے دوران کسی “گولی” کی خبر نہ ملی، اور PTI قیادت محض لاٹھی چارج دیکھ کر راہ فرار اختیار کر گئی۔ ایک وزیراعلیٰ سے تدبر، سنجیدگی اور بالغ نظری کی توقع رکھی جاتی ہے۔

رہا افغانستان سے تعلقات کا معاملہ، تو یہ ریاستوں کے درمیان طے پاتے ہیں، کسی صوبے اور غیر ملکی ریاست کے درمیان نہیں۔ البتہ اگر وفاق کی سطح پر تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو خیبرپختونخوا سمیت دیگر سرحدی علاقوں کو اس کا فائدہ ضرور پہنچ سکتا ہے—بشرطیکہ صوبائی حکومت سنجیدگی سے حکمرانی کرے، نہ کہ ہر وقت سیاسی محاذ آرائی میں الجھی رہے۔

جے یو آئی کی جانب سے صوبائی حکومت کے خلاف ممکنہ تحریک کی باتوں سے لگتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں ایک نئی سیاسی کشمکش سر اٹھا رہی ہے، جو ممکنہ طور پر عوامی مسائل کے حل کے بجائے سیاسی مفادات کے گرد گھومے گی۔

وائس آف کے پی اور اسکی پالیسی کا لکھاری کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

عید کی خوشیاں اور ہماری زمینی حقیقتیں-خیبرپختونخواراؤنڈاَپ

Shopping Basket