Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Saturday, September 6, 2025

نئے صوبوں کی ضرورت

وصال محمدخان
وطن عزیزمیں آجکل نئے صوبے بنانے پربحث وتمحیص کاایک سلسلہ شروع ہوچکاہے۔کچھ ذرائع کادعویٰ ہے کہ اعلیٰ سطح پر ملک کوبارہ صوبوں میں تقسیم کرنے کامعاملہ زیرغورہے۔ملک میں نئے صوبے بنانے کامعاملہ کسی سطح پرزیرغورہے یایہ محض دعوے ہیں اس سے قطع نظرنئے صوبے بناناکوئی معیوب بات نہیں۔قیام پاکستان کو78برس کاعرصہ بیت چکاہے قیام کے وقت ملکی آبادی اورآج کی آبادی میں پانچ گنا فرق آچکاہے مگرصوبے وہی چلے آرہے ہیں۔نئے صوبوں کی جوسوچ جہاں بھی پنپ رہی ہے اسکی وجہ صوبائی حکومتوں کی ناقص کارکردگی ہے۔اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کواختیارات اورفنڈزتومنتقل ہوگئے مگرصوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داریاں بااحسن پوری کرنے میں ناکام رہیں۔صوبائی خودمختاری کانعرہ اورصوبوں کوزیادہ رقم اوراختیارات ملنے کاتجربہ تقریباًناکام ہوچکاہے اس سے صوبائی حکومتیں ایک توسرکشی پرآمادہ نظرآئیں دوسرے یہ اپنی منصبی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بھی ناکام رہیں۔صوبائی حکومتیں اختیارات سمیٹ کرمطلق العنانیت کی راہ پرچل پڑی ہیں وہ بلدیاتی اداروں کاوجودبرداشت کرنے کیلئے تیارنہیں۔اول توبلدیاتی انتخابات سے فراراختیارکرنے کی روش اپنائی جاتی ہے، اعلیٰ عدلیہ باربارانتخابات کروانے کے احکامات جاری کرتی ہیں مگرانہیں پرکاہ برابراہمیت نہیں دی جاتی اورجب کوئی صوبائی حکومت مجبورہوکربلدیاتی انتخابات منعقدکرنے پرمجبورہوتی ہے توان اداروں کوفندزاوراختیارات نہیں دئے جاتے۔خیبرپختونخوامیں بلدیاتی ادارے موجودہیں جو2021میں بنے ہیں مگران اداروں کے منتخب نمائندوں نے اپنازیادہ تروقت سڑکوں پرفنڈزاوراختیارات کیلئے احتجاج کرتے گزارا۔ کبھی وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاجی کیمپ لگاتے ہیں وزیراعلیٰ کادل پسیج جاتاہے اورانہیں مذاکرات کیلئے اندربلالیاجاتاہے انہیں تسلی دی جاتی ہے،وعدے کئے جاتے ہیں ”بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسریاں ہیں،حکومت بلدیاتی اداروں کومضبوط دیکھناچاہتی ہے، آئندہ بجٹ میں بلدیاتی اداروں کواتنے فیصددینگے“کابیان جاری کیاجاتاہے۔مگرنہ ہی ان اداروں کوفندز فراہم کئے جاتے ہیں،نہ ہی انہیں بااختیاربنایاجاتاہے اوریہ ناروا سلوک پی ٹی آئی کی موجودہ اورگزشتہ دوحکومتوں نے روارکھا۔یہ ادارے محمودخان دورمیں بنے تھے انکے بنتے ہی بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم سے انکے اختیارات پرکلہاڑاچلادیاگیا جوکسررہ گئی تھی وہ گنڈاپورحکومت نے پوری کردی۔پنجاب کاحال بھی اس معاملے میں قابل رشک نہیں۔شہبازشریف حکومت میں بلدیاتی انتخابات کروائے گئے،ادارے قائم کئے گئے مگرانہیں بزدارحکومت نے معطل کیابعدمیں عدالت نے بحال کیا مگر حکومت نے انہیں عضوئے معطل بناکررکھ دیا۔اب ان دونوں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کاانعقادآئینی ضرورت ہے۔خیبرپختونخوامیں بھوکے ننگے بلدیاتی ادارے موجودہیں جن کادورانیہ شائد آئندہ دسمبرمیں ختم ہورہاہے مگراس موجودگی سے بہترہوگاانہیں توڑکرنئے انتخابا ت کروائے جائیں۔جب صوبائی حکومتوں کی کارکرد گی ناقص ہواوراسکے باوجودوہ اختیارات تقسیم کرنے اورنچلی سطح تک منتقل کرنے پر تیار نہ ہوں تواس صورت میں نئے صوبے بنانے کی سوچ بھی جنم لے گی اورصوبوں کے اختیارات پرقدغن بارے غوروخوض بھی ہوگا۔ اب ایک نظام ڈیلیورکرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، صوبے اختیارات کا درست استعمال کرنے سے قاصرہیں،فنڈزلیپس ہورہے ہیں، پورے سال میں ترقیاتی بجٹ کا40فیصداستعمال کرنے پر شادیانے بجائے جاتے ہیں کہ ہم نے خسارے کے بجٹ کوسرپلس بجٹ میں تبدیل کردیا۔ایم پی ایزاورایم این ایز کھمبوں، ٹرانسفارمرز کی تنصیب اورگلیاں نالیاں پختہ کرنے میں مصروف ہیں جودرحقیقت بلدیاتی اداروں کا کام ہے۔سوات میں ویلیج کونسل کے پاس فنڈزاوراختیارات ہوتے تووہ اپنی ضرورت کے مطابق کشتیاں خریدتے اور18افرادکوباآسانی بچایاجاسکتا۔ان بدقسمت افرادکو بچانے کیلئے ہیلی کاپٹرکی نہیں ریسکیووالی کشتیوں کی ضرورت تھی جن کی قیمت بھی ہیلی کاپٹرسے بدرجہاکم ہے یعنی یہ کشتیاں کروڑوں لاکھوں میں نہیں چندہزارروپوں میں آسکتی ہیں ہیلی کاپٹرپروزیراعلیٰ کومطعون کیاگیامگریہ بات یادرکھنے کی ہے کہ خیبر پختونخواکاملکیتی ہیلی کاپٹر صرف آمدورفت کیلئے استعمال کیاجاسکتاہے آپریشن میں اسکے استعمال کاانجام تباہی کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔نجانے صوبائی حکومتو ں کوبلدیاتی اداروں سے کیاپرخاش ہے؟ان اداروں کی عدم فعالیت سے حکومتوں کی ناقص کارکردگی بھی آشکارا ہوتی ہے اگربلدیاتی ادار ے فعال ہونگے تووہ کام کرینگے انہیں گراؤنڈپرحقائق کاعلم ہوتاہے۔بھارت سمیت دنیاکے بیشترممالک میں حکومت تین حصوں وفاقی، صوبائی یاریاستی اوربلدیاتی اداروں پرمشتمل ہوتی ہے۔وفاق صوبائی حکومتوں کے ذریعے اورصوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کے ذریعے ریاستی نظام چلاتے ہیں مگرہمارے ہاں وفاق اوربلدیاتی اداروں کوعضوئے معطل بناکررکھ دیاگیاہے اورتمام نظام حکومت صوبائی حکومت یاوزیراعلیٰ کے ہاتھ میں دیاگیاہے جواسے چلانے کی بجائے گھسیٹ رہے ہیں۔صوبائی حکومت کی ناک کے نیچے 40ارب روپے ہڑپ کئے جاتے ہیں مگرحکومت کوکانوں کان خبرتک نہیں ہوتی اوربعدمیں نیب کی ریکوری پربغلیں بجائی جاتی ہیں کوئی بھی صوبائی حکومت تھی اسکی موجودگی میں اتنی بڑی رقم ہڑپ کی گئی مگروہ خواب خرگوش میں مگن تھی اس کاواضح مطلب یہی ہے کہ صوبائی حکومت کی رٹ پشاورسے کوہستا ن میں لاگوکرنے میں دشواری پیش آرہی ہے۔یہ امرباعث حیرت ہے کہ ہمیشہ جمہوری ادوارمیں بلدیاتی اداروں کا گلا گھونٹاگیاجبکہ ڈکٹیٹر شپ میں بلدیاتی ادارے قائم کئے گئے اوران سے کام لیاگیامگران ادوارمیں بھی توازن برقرارنہ رکھاجاسکااورصوبائی حکومتیں بائی پاس کی گئیں اب صوبائی حکومتیں مطلق العنان بن بیٹھی ہیں جووفاق اوربلدیاتی اداروں کے سینوں پرمونگ دل رہی ہے مسئلہ گھمبیرہے جس کاحل یاتوبلدیاتی ادارے فعال کرنااوریاپھرنئے صوبے بنانا ہے۔صوبائی حکومتیں اپنی کارکردگی میں جوہری تبدیلی لانے سے قاصرہیں۔ دنیاکے سو،سوممالک سے بڑے صوبوں کاانتظام وانصرام سنبھالنا اکیلے ایک وزیراعلیٰ کیلئے ناممکن ہے۔ نئے صوبے بنانا،اختیارات اورفنڈزکاکچھ حصہ وفاق کی جانب منتقل کرنا اور بلدیاتی اداروں کے انتخابات منعقدکرکے انہیں بااختیار بنانا وقت کی ضرورت ہے۔

وائس آف کے پی اور اسکی پالیسی کا لکھاری کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

نئے صوبوں کی ضرورت

Shopping Basket