سیاست کا یہ انداز

سیاست کا یہ انداز

وطن عزیز میں ہمہ اقسام کی جماعتیں سیاست میں سرگرم ہیں جو اپنے اپنے طریقوں سے ووٹرز کو راغب کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں۔ کوئی مذہب کارڈ کھیل رہا ہے، کوئی لسانیت کی بنیاد پر سیاست کر رہا ہے، تو کوئی قومیت کو اپنی سیاست کا محور بنائے ہوئے ہے۔

مگر ان سب میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جس کے پاس اپنا کوئی پروگرام نہیں۔ کبھی وہ مذہبی ٹچ کا سہارا لیتی ہے، کبھی قوم پرست جماعت بن جاتی ہے، تو کبھی امریکی مخالفت کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔ اس جماعت کا نام پاکستان تحریک انصاف ہے۔ نام اور جماعت کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو نہ ہی یہ کوئی تحریک ہے اور نہ ہی اسے انصاف سے دور دور کا کوئی واسطہ ہے بلکہ اس کی ساری سیاست دوسروں کے خلاف بیان بازی کی مرہون منت ہے۔

حالیہ ملکی صورتحال میں فوج نے پہلی بار اپنے ایک اہم عہدیدار کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس اقدام کو ملکی سطح پر سراہا گیا ہے کیونکہ جنرل (ر) فیض حمید کے کردار سے عوام کی غالب اکثریت آگاہ ہے اور سیاست، عدالت، حکومت اور ریاست کے معاملات میں ان کی بے جا مداخلت سے ملک کے بیشتر حلقے نالاں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی گرفتاری اور کورٹ مارشل پر ملک بھر میں سکون کا سانس لیا گیا۔

فیض حمید کا معاملہ ایسا ہے جس سے عمران خان براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ کسے نہیں معلوم کہ عمران خان کی حکومت کن حالات میں، کیسے اور کس کی مہربانی سے بنی اور اس بنی بنائی حکومت کو انہوں نے کیسے اپنی نااہلی کے سبب گنوا دیا۔ حکومت گنوانے کے بعد شاید انہوں نے ذہنی توازن بھی کھو دیا ہے، اس لیے کہ اس دوران دنیا کا ایسا کوئی الزام نہیں جو انہوں نے فوج کے سر نہ تھوپا ہو۔

فوج کا نام اس طرح اپنی سیاست کے لیے کسی دیگر جماعت نے استعمال نہیں کیا۔ فوج کو اس طرح سیاسی بیان بازیوں کا موضوع کسی سیاسی راہنما نے نہیں بنایا اور اسے کسی بھی فرد نے اس طرح بدنام کرنے کی کوشش نہیں کی۔ فوجی قیادت کو الٹے سیدھے القابات سے نوازا گیا اور ملک دشمن تک کہا گیا۔

حکومت ملنے سے قبل تحریک انصاف کی سیاسی عمارت دوسرے سیاستدانوں کی ہتک اور لغو الزامات پر ایستادہ تھی، جبکہ حکومت گنوانے کے بعد اس کی توپوں کا رخ فوج کی جانب مڑ گیا۔ ان توپوں سے فوج پر غلیظ گولہ باری کی گئی، اسے سوشل میڈیا ٹرینڈز کے ذریعے ٹارگٹ کیا گیا، اہم عہدیداروں کی حادثاتی شہادت تک کو نہیں بخشا گیا۔ ان مذموم حرکات سے فوج کو مرغوب نہیں کیا جا سکا تو 9 مئی کو براہ راست فوجی تنصیبات پر حملہ کروایا گیا۔

تفتیشی اداروں کی کوتاہی اور ان کے طریقہ کار میں ان گنت خامیاں نہ ہوتیں تو اب تک کئی راہنماؤں کو سزا سنائی جا چکی ہوتی۔ ایک سال کا عرصہ گزر جانے پر یہ سمجھا گیا کہ لوگ 9 مئی کی غنڈہ گردی بھول چکے ہیں، اس لیے جس کے خلاف حملے کیے گئے اسی پر ان کا الزام دھرا دیا گیا کہ 9 مئی کے واقعات فوج نے خود کروائے۔

پچھلے ماہ جب فوج نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو گرفتار کیا اور ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کا آغاز کیا گیا تو عمران خان کا بیان آیا کہ یہ فوج کا اندرونی معاملہ ہے، مگر دوسرے دن کہا گیا کہ فیض حمید ہمارا اثاثہ تھے جنہیں ضائع کر دیا گیا۔

ایک دن کہا جاتا ہے کہ فیض حمید فوج کا اندرونی معاملہ ہے، دوسرے دن انہیں اثاثہ قرار دیا جاتا ہے، تیسرے دن ان کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کروانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل کسی بھی کورٹ مارشل کی کارروائی اوپن کورٹ میں نہیں ہوئی۔

مگر چونکہ عمران خان نے تمام اداروں کا بیڑا غرق کرنے، ہر ادارے کو متنازعہ بنانے اور خود کو میڈیا میں اِن رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ کہتے رہنا ہے کیونکہ یہ ان کی سیاسی ضرورت ہے اور وہ یہ ضرورت پوری کرنے کے لیے آئے روز نت نئی بیان بازیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جب فوج کے معاملات سے کسی سیاستدان کو لینا دینا نہیں تو اوپن کورٹ ٹرائل کا مطالبہ کس خوشی میں؟

اس سے ایک ہی بات واضح ہو رہی ہے کہ گزشتہ دو برسوں کی ریاضت کے بعد بھی وہ فوج میں دراڑ ڈالنے میں ناکام رہے۔ ان کی منشا کے مطابق فوج نے انہیں اقتدار دلانے کے لیے اپنے کاندھے استعمال نہیں کیے اور اس نااہل شخص اور اس کی نااہل ٹیم و پارٹی کو ملک و قوم پر مسلط نہیں ہونے دیا۔ جس کا بدلہ وہ سیاسی بیان بازی کے ذریعے فوج کے ہر اقدام اور ہر معاملے کو متنازعہ بنا کر لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہاں یہ امر بھی باعث تعجب ہے کہ ایک ملزم یا سزا یافتہ مجرم کو یہ سہولت کس نے فراہم کی کہ وہ روزانہ اور ہر پیشی پر پریس ٹاک کریں، قومی سلامتی کے اداروں پر سیاست کرتے رہیں اور انہیں “کچھ بھی” کہنے کی اجازت دی گئی ہے؟

اگر انہیں یہ سہولت عدالتوں کی نظر میں ضروری ہو تو قومی سلامتی کے اداروں کے حوالے سے پابندی لگائی جائے اور عدالتوں، ججوں کے بارے میں بولنے کی اجازت دی جائے تاکہ ان کی دانشمندانہ اور پرمغز بیان بازی سے عدالتیں مستفید ہوں۔

پارٹی راہنماؤں کی جانب سے اسلام آباد جلسے میں جو زبان استعمال کی گئی وہ کسی صورت سیاستدانوں کو زیب نہیں دیتی۔ سیاست کا یہ انداز کسی صورت ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ اس ناروا روش کا سلسلہ منقطع کرنا ہوگا۔

— وصال محمد خان

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket