Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Thursday, June 26, 2025

ٹرمپ، یاہو اور مودی

وصال محمد خان
رواں برس کے گزشتہ دومہینوں کے دوران رونماہونیوالے 2واقعات نے ثابت کیاکہ دنیامیں زندہ رہنے کیلئے طاقتورہوناضروری ہے ۔ 23اپریل کومقبوضہ کشمیرکے سیاحتی مقام پہلگام میں بقول بھارت27افرادکوقتل کردیاگیاجس کاالزام اس نے پاکستان کے سرتھوپ دیا اور اسے نہ صرف جنگ کی دھمکیاں دی جانے لگیں بلکہ اسکی عبادتگاہوں اورپرامن شہریوں پرحملہ بھی کردیاگیا۔جس کے نتیجے میں چالیس بے گناہ اورمعصوم شہری جاں بحق ہوئے ۔اس جارحیت کے جواب میں پاکستان نے 10مئی کی صبح بھارت کومنہ توڑجواب دیکراپنے نا قابل تسخیرہونے کاثبوت دیا۔دندان شکن جواب ملنے پربھارت نے امریکہ کودرمیان میں لاکرجنگ بندی کروائی ۔

اسکے بعد13 جون کو اسرا ئیل نے ایران کے ایٹمی تنصیبات پرحملہ کردیاجس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑگئی اورایکدوسرے کے تنصیبات و املا ک پرحملوں کاایک لامتناہی سلسلہ شروع کردیاگیا۔ ایک ہفتے تک امریکہ گومگوں کی کیفیت میں مبتلاتھاکہ وہ اس جنگ میں مداخلت کرے یااس سے دوررہے ۔صدرٹرمپ نے حملے والے دن بھی دوہفتے بعد فیصلہ کرنے کاعندیہ دیاجس سے امن پسندقوتوں نے اطمینان کا سانس لیاکہ دوہفتوں تک امریکہ کی جنگ میں کودنے کاخطرہ ٹل چکاہے اوراس امیدکااظہارکیاجارہاتھاکہ شائداس دوران مذاکرات کا کوئی ڈول ڈالاجائے اورخطے سمیت پوری دنیاپرتباہ کن جنگ کے منڈلاتے بادل چھٹ جائیں مگراتوارکی صبح اچانک امریکہ نے ایران کے ایٹمی تنصیبا ت پرحملہ کردیااوردعویٰ کیاکہ ایران کے تین ایٹمی تنصیبات تباہ کردی گئی ہیں ۔

ایران پرامریکی حملے سے خطے سمیت پوری دنیا کے امن کوخطرا ت لاحق ہوگئے ایران پراسرائیلی حملے سے پہلے ہی خطے کے حالات سنگین صورت اختیارکرچکے تھے مگرایران کی جانب سے اسرائیل کوترکی بہ ترکی جواب سے اسرائیل اس جنگ میں شکست کے دہانے پر پہنچ گیاتھاجسے ریسکیوکرنے کیلئے امریکہ میدان میں کود پڑا۔ امریکہ نے اگر چہ ایران کے ایٹمی تنصیبات نطنز،اصفہان اورفردوپرحملے کے بعدجنگ بندی کااعلان کیااورخطے سمیت پوری دنیامیں امن کا راگ الاپنا شروع کردیا مگرامن کے یہ نعرے کھوکھلے ہی محسوس ہوئے کیونکہ اگرامریکہ امن کاداعی ہوتااوروہ خطے سمیت دنیامیں امن کا خوا ہاں ہوتاتو اسے ایران پرحملے سے قبل ہی مذاکرات کاڈول ڈالناچاہئے تھا۔ایک جانب اگراسرائیل کاایران پرحملہ کھلی دہشت گردی اور جار حیت تھی تو دوسری جانب امریکی حملے کو اس سے بھی بڑی جارحیت کی نظرسے دیکھاگیا ۔ایک جانب امریکہ ایران کیساتھ ایٹمی معاملے پر مذاکرات کررہاتھاجس کاایک دور13جون کوہوناتھاعین اس سے ایک روزقبل اسرائیل نے تمام بین الاقوامی قوانین کوجوتے کی نوک پہ رکھتے ہوئے ایران پرحملہ کردیاجس سے خطے میں جنگ کے شعلے بڑھک گئے۔

ایران پرامریکی حملے کاکوئی قانونی یااخلاقی جوازموجود نہیں تھا۔ ایران نے آئی اے ای اے کواپنے ایٹمی تنصیبات کے معائنے کی اجازت دے رکھی تھی ،وہ این پی ٹی کاممبرہے اوران اداروں کی رپور ٹس کے مطابق ایران ایٹمی ہتھیاربنانے کے قابل نہیں ۔اگرآئی اے ای اے کی رپورٹ ایران کے خلاف ہوتی تب توحملے کاجوازبن جاتا مگر ایسی کوئی رپورٹ بھی سامنے نہیں آئی ۔ایران پرامریکی حملے کے جواب میں قطرکے امریکی اڈوں پرحملہ کیاگیاجس کے بعدامریکی صدر نے جنگ بندی کااعلان کیا۔ مندرجہ بالادونوں واقعات سے ثابت ہواکہ دنیامیں جس کی لاٹھی اسکی بھینس والاقانون رائج ہوچکا ہے اگرچہ دنیا نے بے انتہاترقی کرلی ہے مگربھارت اوراسرائیل جیسے ممالک کے حالیہ اقدامات سے واضح ہواکہ دنیامیں زندہ رہنے کیلئے طاقتورہونا ضرور ی ہے اور‘‘جرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات ہے’’ ۔امریکی صدرٹرمپ نے جنگ بندی کرائی۔ انہیں شائدامن کانوبل انعام بھی مل جا ئے مگران دوواقعات نے دنیاکوایک نیا ٹرینڈدے دیاہے اب ہرچھوٹے بڑے ملک کواحساس ہوچکاہے کہ اگروہ جارحیت کامنہ توڑجواب دینے کااہل نہیں توکسی بھی وقت کوئی بھی طاقتوراسکے ساتھ کچھ بھی کرسکتاہے ۔اگرپاکستان کے پاس بھارت کودندان شکن جواب دینے کی صلاحیت نہ ہوتی تویقیناًوہ اسے غزہ ہ جیسی صورتحال سے دوچارکرنے کے مذموم ارادے رکھتاتھا۔

اسی طرح اگرایران اسرائیل پرمیزائل نہ برساتااورامریکی ائیربیس پرحملے کرنے کے قابل نہ ہوتاتوبارہ روزہ جنگ کاانجام عراق ،شام اورلیبیاسے مختلف نہ ہوتا۔ان دونوں جنگوں سے اقوام متحدہ کی عدم افادیت بھی واضح طورپرسامنے آ ئی ۔ پون صدی گزرجانے کے باوجوداس سے کشمیرکامسئلہ حل ہوااورنہ ہی فلسطین کے حوالے سے اپنے پیش کئے گئے منصوبے پرعملدرآمدکرواسکا ۔اسرائیل نے تمام بین الاقوامی قوانین بشمول جنیوامعاہدے ،اقوام متحدہ کی قراردادوں اورقوانین کوبالائے طاق رکھتے ہوئے غزہ کوملیامیٹ کیا،ایران پرحملہ کیامگرکسی ادارے کواسے روکنے کی توفیق نہ ہو سکی ستم بالا ئے ستم امریکی صدرنے دوہفتے کی مہلت دیکراگلے ہی دن ایران پرحملہ کردیا جس سے انہوں نے بھی اپنااعتماد کھودیاہے اور اب دنیا کا کوئی بھی شخص صدرٹرمپ کی کسی بات کا یقین کرنے کوتیارنہیں بلکہ انہیں مسلم دنیاکے بیشترلوگ ایب نارمل امریکی صدر سمجھ رہے ہیں۔

عالمی عدالت انصاف کے نیتن یاہوکے خلاف فیصلے پرعدم عملدرآمدسے بھی ثابت ہوتاہے کہ دنیامیں کوئی قانون نہیں ،کوئی ضابطہ نہیں ،کوئی اخلاقی معیار نہیں ،کسی بھی انسانی حقوق کاکوئی احترام نہیں اگرکوئی ملک یاقوم کمزورہے اوردوسراملک اسکے خلاف جارحانہ عزائم رکھتاہے تو اقوام متحدہ ، کوئی بھی ادارہ یاکوئی بھی بین الاقوامی قانون اسے روکنے کااہل نہیں بس جارحیت کاواحد علاج یہی ابھرکر سامنے آیاہے کہ جارح کامنہ توڑ دیاجائے یااسکے ہاتھوں تباہ وبربادہواجائے ۔امریکہ ،صدرٹرمپ ،نیتن یاہواورنریندرمودی کے حالیہ حرکات نے دنیاکے تمام اقوام میں مضبوط دفاع کاتصوراجاگرکیاہے جس کے نتیجے میں اب ملک چھوٹاہویابڑا، اسکے پاس کھانے کوروٹی اورپہننے کوکپڑاہویانہ ہومگر ہرملک اور قوم اپنی بساط سے بڑھکردفاع پرخرچ کریگا جس سے دنیامیں اسلحے کی ایک نئی دوڑکاآغازہوگااوربیشتر وسائل انسانوں پرخرچ ہونے کی بجائے اسلحے اوردفاع پرخرچ ہونگے اوردنیامیں مہلک اورتباہ کن ہتھیاروں کے انبارلگ جائیں گے ۔اور انسانیت کیساتھ اس ظلم عظیم کی ذمہ داری امریکہ ،صدرٹرمپ ،نیتن یاہواورنریندرمودی پر عائدہوگی۔

وائس آف کے پی اور اسکی پالیسی کا لکھاری کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

ٹرمپ، یاہو اور مودی

Shopping Basket