Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Wednesday, April 23, 2025

اقوام متحدہ کی رپورٹ اور افغانستان

اقوام متحدہ میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان نہ صرف کالعدم ٹی ٹی پی کو پناہ دیے ہوئے ہیں بلکہ ان کی مالی مدد بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ٹی ٹی پی وہ تنظیم ہے جسے پاکستان میں کالعدم قرار دیا گیا ہے جبکہ اقوام متحدہ بھی اسے دہشت گرد قرار دے چکی ہے۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘‘ٹی ٹی پی کو افغانستان سے لاجسٹک اور آپریشنل سپیس کے ساتھ پاکستان میں سرحد پار سے حملے کرنے کے لیے مالی مدد بھی ملتی رہی ہے، پابندیوں کی نگرانی کرنے والی اقوام متحدہ ٹیم کی جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کے خلاف دہشت گرد حملے اور ان کے نتیجے میں اموات کی تعداد خاصی بڑھ چکی ہے، پاکستان پر ٹی ٹی پی حملوں کے عزائم اور پیمانے میں رپورٹنگ کی مدت کے دوران چھ سو سے زائد حملے ہوئے، بیشتر حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال ہوئی۔

ٹی ٹی پی نے افغانستان کے صوبوں کنڑ، ننگرہار، خوست، پکتیکا اور برمل میں نئے تربیتی مراکز قائم کر کے افرادی قوت میں اضافہ کیا ہے۔ ٹی ٹی پی، افغان طالبان اور القاعدہ کے درمیان تحریک جہاد پاکستان کے بینر تلے تعاون میں اضافے کی بھی اطلاعات ہیں۔ خودکش بمباروں، جنگجوؤں کی فراہمی اور نظریاتی راہنمائی کے حوالے سے ان گروپوں اور ٹی ٹی پی کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون ٹی ٹی پی کو ایک غیر علاقائی خطرے اور خطے میں سرگرم دیگر دہشت گرد گروہوں کے لیے ایک چھتری تنظیم میں تبدیل کر سکتا ہے۔ افغانستان میں دو درجن سے زائد دہشت گرد گروہ کام کر رہے ہیں، پاکستانی سیکورٹی فورسز نے ایک کارروائی کے دوران داعش خراسان کے ہائی پروفائل ارکان گرفتار کر کے داعش کو بڑا دھچکا پہنچایا، داعش خراسان کی قیادت نے اس کے بعد پرانے طریقوں کو الیکٹرانک اور انٹرنیٹ پر مبنی مواصلات کو کورئیرز کے نیٹ ورک میں تبدیل کیا تاکہ کم سے کم روابط کے ذریعے گرفتاریوں سے بچا جا سکے۔ مجید بریگیڈ، بلوچستان لبریشن آرمی کے ایک ڈیتھ اسکواڈ نے کئی حملے کرنے کا دعویٰ کیا، اس بریگیڈ نے اپنی صفوں میں خواتین کو بھی شامل کیا اور یہ گروپ پاکستان کے جنوبی علاقوں آواران، پنجگور اور دالبندین میں کام کرتا تھا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ اس حوالے سے چشم کشا ہے کہ افغانستان ہمیشہ سے ٹی ٹی پی کی کارروائیوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتا آ رہا ہے۔ اس سے قبل اشرف غنی اور حامد کرزئی حکومتوں کے دوران تو افغانستان حالت جنگ میں تھا، افغان طالبان کا مؤقف تھا کہ امریکہ نے غاصب بن کر افغانستان پر قبضہ کیا ہے جسے افغان طالبان چھڑانے کے لیے جہاد کر رہے ہیں۔ اس دوران پاکستان کے شہروں، دیہات اور شاہراہوں پر لاتعداد خودکش حملے ہوئے، سیکیورٹی فورسز کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا حتیٰ کہ اسکولوں اور اسپتالوں تک کو نہیں بخشا گیا۔

مگر اب جبکہ امریکہ معاہدے کے تحت افغانستان سے جا چکا ہے اور اس معاہدے میں دیگر شقوں کے علاوہ یہ شق بھی شامل ہے کہ طالبان کی عبوری حکومت افغان سرزمین کو کسی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دے گی۔ مگر جب سے امریکہ افغانستان سے نکلا ہے تب سے پاکستان کے اندر دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور یہ حملے افغان سرزمین سے ہو رہے ہیں۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ افغان طالبان نہ ہی امریکہ کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر پورا اتر سکے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ کیا گیا وعدہ وفا ہوا ہے۔

ٹی ٹی پی چونکہ پاکستان کی دشمن نمبر ون ہے، اس لیے وہ اپنی دشمنی نکالنے کے لیے پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور معصوم، بے گناہ و پرامن شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے مگر افغان طالبان اس مذموم حرکت میں ٹی ٹی پی کا ساتھ دے کر نہ صرف بین الاقوامی معاہدوں سے انحراف کے مرتکب ہو رہے ہیں بلکہ ان کی یہ پالیسی خطے کی سلامتی کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے۔ پاکستان اب تک تحمل، برداشت اور دانشمندی کا مظاہرہ کرتا آ رہا ہے اور نہیں چاہتا کہ کسی ہمسایہ ملک میں کارروائیاں کرے اور وہ ملک بھی جس کے لیے اس نے قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کی ہے، 45 سال سے اس کے شہریوں کو پناہ دے رہا ہے، ان کا سہارا بنا ہوا ہے، اس کی خودمختاری کے لیے اپنی سلامتی داؤ پر لگا رکھی ہے اور سب سے بڑھ کر اس ملک کی حکمران جماعت پاکستان کی مدد سے ہی برسر اقتدار آئی ہے۔

ورنہ پاکستان کے لیے چنداں مشکل نہیں کہ وہ افغان سرزمین پر موجود اپنے کمینے دشمنوں کی سرکوبی کرے اور اپنے شہریوں کو ٹی ٹی پی کے خونخوار درندوں سے بچائے جو نہ صرف یہاں معصوم اور پرامن شہریوں کا خون بہا رہے ہیں بلکہ سیکورٹی فورسز کے خلاف بھی بزدلانہ حملے کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اب تک پاکستان ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا آ رہا ہے اور نہیں چاہتا کہ اس کی طاقت برادر ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال ہو۔ مگر افغان طالبان نہ صرف اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے اجتناب برت رہے ہیں بلکہ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی سہولت کاری اور مالی مدد بھی کر رہے ہیں۔ ان اقدامات سے خطے کے امن پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

اب تک تو پاکستان افغان عبوری حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرواتا رہا ہے کہ اس کی سرزمین اپنے ہمسایہ ملک کے خلاف خونریزی کے لیے استعمال ہو رہی ہے مگر افغان طالبان کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ وہ نہ ہی دہشت گردوں کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے ہیں اور نہ ہی پاکستان کو ان کے خلاف کارروائی کی اجازت دے رہے ہیں۔ اب تو یہ معاملہ اقوام متحدہ کے ذریعے سامنے آیا ہے کہ پاکستان افغان عبوری حکومت کی غلط پالیسیوں سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔ افغان عبوری حکومت اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کو سنجیدہ لے، یہ ان کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے اور اس میں تفصیلاً ذکر کیا گیا ہے کہ افغان طالبان نہ صرف ٹی ٹی پی کی مدد کر رہے ہیں بلکہ انہیں افرادی قوت میں اضافے کی سہولت بھی مہیا کی گئی ہے۔ ان کی یہ افرادی قوت پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے اور انہیں بھارتی بدنام زمانہ را کا تعاون بھی حاصل ہے۔ یقیناً ریاست پاکستان اقوام متحدہ کی افغانستان بارے رپورٹ سے بخوبی آگاہ ہے اور اپنی سلامتی کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

وصال محمد خان

وائس آف کے پی اور اسکی پالیسی کا لکھاری کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ اور افغانستان

Shopping Basket