وصا ل محمدخان
فلسطینی سرزمین پرقائم ناجائزصیہونی ریاست اسرائیل نے ایک بارپھرایران پرحملہ کرکے اپنے مذموم عزائم کااظہارکردیاہے۔یہ ریاست اگر ایک جانب ناجائزذرائع سے قائم ہوئی تودوسری جانب اسکے شرسے پاس پڑوس کاکوئی مسلمان ملک محفوظ نہیں۔اس نے فلسطینی سرزمین پرقبضہ کرکے اسرائیل نامی ناجائزریاست قائم کی،لبنان کوحزب اللہ کے خلاف کارروائی کے نام پرکھنڈربنادیا،اردن سے گولان کاعلاقہ چھین لیا،مصرکیساتھ جنگیں لڑیں اورعراق،لیبیااورشام کوتاخت تاراج کروانے میں اہم کرداراداکیا۔ماضی میں ایران کیساتھ چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوتی رہیں مگراب ایران پرایک بڑااوربھرپورحملہ کیاگیاہے جس میں اسرائیلی دعوے کے مطابق ایٹمی تنصیبات،سائنسدانوں اور فوجی افسران کونشانہ بنایاگیاہے جبکہ رہائشی علاقوں پر حملوں میں سوکے قریب افرادجاں بحق ہوچکے ہیں۔حملے کے جواب میں ایران نے بھی اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب سمیت دیگرشہروں میں فوجی تنصیبات اوررہائشی علاقوں پرحملے کئے ہیں جس میں درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔اسرائیل کی تازہ حرکت سے خطے سمیت پوری دنیاایک بہت بڑے بحران سے دوچارہوچکی ہے۔ حملے سے ایرا نی ایٹمی تنصیبات کوناقابل تلافی نقصان پہنچاہے جس کے نتیجے میں تابکاری پھیلنے کاخطرہ بھی نظراندازنہیں کیاجاسکتامگراس اوچھی حرکت کے جواب میں اسرائیل کوبھی اچھاخاصانقصان اٹھاناپڑاہے۔اسرائیل اس قسم کی جوابی کارروائی کاعادی نہیں تھا جس قسم کی کارروا ئی اسکے خلا ف ایران نے کی ہے اس نے ہمیشہ ان ممالک پرحملے کئے ہیں جواسے جواب دینے کی اہلیت نہیں رکھتے۔سترکی دہائی میں ہونیوا لی عرب اسرائیل جنگوں کے بعدشائدپہلی باراسے کسی بھرپور جوابی کارروائی کاسامناکرناپڑاہے جس سے اسکی چیخیں آسمان تک بلندہورہی ہیں۔ اسرائیل کاحالیہ اقدام اقوام متحدہ کے چارٹراور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے جس کے ردعمل میں ایرانی کارروائی کو یقیناً حق بجانب سمجھاجائیگا۔ مسلم امہ اگرچہ خودکسی کارروا ئی کی پوزیشن میں نہیں مگراسرائیل کے خلاف کی گئی کسی بھی جوابی حملے کاحامی ہے۔ امریکہ اگر چہ حملے سے بریت کااظہارکررہاہے اوراسکی جانب سے جاری کئے گئے اعلامئے میں کہاگیاہے کہ حملہ اسرائیل کی اپنی کارروائی ہے مگر امریکہ چاہے جتنی بھی صفائیاں دے یامعاملے کوتوڑمروڑکرپیش کرے جنگ کی آگ بھڑکانے میں اسکے کردارکو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ خطے کے ممالک اوراقوام متحدہ بھی فریقین پرصبروتحمل کیلئے زور دے رہے ہیں مگر صبروتحمل کایہ درس اگراسرائیل کودیاجاتااوراسے جار حیت سے بازرکھنے کی کوشش ہوتی توآج دنیاایک تباہ کن جنگ کے دہانے تک نہ پہنچ چکی ہوتی۔گزشتہ اسی برسوں کی تاریخ یہی بتا رہی ہے کہ اقوام متحدہ کسی مظلوم کی مددکرنے یاجارحیت کاارتکاب کرنے والے کوسزادینے سے قاصررہاہے۔جس کالازمی نتیجہ یہی نکل رہا ہے کہ اب اقوام متحدہ کانام ہی شرمساری کی علامت بن چکاہے کوئی اسکی سنتاہے اورنہ ہی کسی بات کایقین کیاجاتاہے۔حالانکہ اس کا قیام دنیامیں مسائل حل کرنے کیلئے عمل میں لایاگیاتھامگراس نے آج تک کوئی مسئلہ حل نہیں کیا۔اسکے روسٹرم پرکشمیراورفلسطین کے مسائل پون صدی سے موجودہیں مگردونوں مسائل کی حل کیلئے اسکی کوششیں نہ ہونے کے برابرہیں جس کالازمی نتیجہ یہی نکل رہاہے کہ مسئلہ کشمیر پر دو ایٹمی طاقتیں ہمہ وقت آمنے سامنے رہتی ہیں اورکوئی معمولی سی غلطی یانریندرمودی جیسے احمق سربراہ مملکت کی حماقت خطے کے دوارب انسا نوں کوموت کے گھاٹ اتارسکتی ہے۔اسی طرح مسئلہ فلسطین گزشتہ اسی برسوں میں لاکھوں لوگوں کی جانیں لے چکاہے اورایران اسرائیل جنگ سے لاکھوں پرامن اورمعصوم شہریوں کی زندگی داؤپرلگ چکی ہے۔اسرائیل کی غنڈہ گردی اورمغربی طاقتوں کی ہلاشیری سے خطے کا ہر ملک زیادہ سے زیادہ اسلحہ بنانے یاجمع کرنے کے دوڑمیں مصروف ہوچکاہے کیونکہ اسرائیل خطے کے تمام ممالک کے وجودکیلئے خطرے کی حیثیت اختیارکرچکاہے۔ اسرائیل نے ایران پرحالیہ حملے سے ثابت کیاکہ ایران ایٹمی پروگرام جاری رکھنے بلکہ ایٹمی اسلحہ بنانے میں بھی حق بجانب تھاایٹمی اسلحے کی اجازت اگرخطے میں اسرائیل کودی جاچکی ہے اوروہ خطے کے تمام ممالک کے خلاف کسی نہ کسی شکل میں جار حیت کاارتکاب بھی کرچکاہے توایران کوایٹمی پروگرام سے کیونکرروکاجارہاہے؟اس کاتوواضح مطلب یہی لیاجاسکتاہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادی ایران کے ہاتھ باندھ کراسے اسرائیل کیلئے ترنوالہ بنانے کی راہ پرگامزن ہیں۔ ایٹمی پروگرام ختم کرنے سے اسکی سلامتی کوشدید خطرات لاحق ہوسکتے تھے اسرائیل نے گزشتہ کچھ عرصے سے ایران کے خلاف جس قسم کی جارحیت کی اس سے ثابت ہواکہ ایران اپنی دفاع کیلئے ہرقدم لینے میں حق بجانب ہے۔اب اگرچہ تباہ کن جنگ کا آغازاسرائیل کی جانب سے ہوچکاہے اورایران کوئی اردن،شام،لبنان یافلسطین نہیں کہ حملے کوصبرکاگھونٹ پی کربرداشت کرلے گا اس نے اسرائیلی توقع سے بڑھکرجواب دیاہے جس سے وہ خطہ جوگزشتہ اسی برسوں سے اسرائیل کے ہاتھوں جنگ وجدل کامرکزبن چکاہے ان شعلوں نے اسرائیل کابھی رخ کرلیاہے یعنی دوسروں پرحملے کرنیوالا اسرائیل خودایرانی حملوں کی زدمیں آچکاہے۔ وہ اگرچہ ایران پرمزیدحملے کریگامگرایران بھی جواب میں خاموش نہیں رہیگا اوریوں مشرق وسطیٰ کاپورا خطہ نا معلو م مدت تک جنگ کی دلدل میں دھنسارہیگا۔ضرورت اس امرکی ہے کہ امریکہ سمیت دیگرعالمی طاقتیں جنگ کو پھو نکیں مارنے کی بجا ئے ان بھڑکتے شعلوں کوبجھانے کی کوشش کریں۔ اگرچہ صدرٹرمپ نے ابتدامیں جنگوں کی مخالفت کاعندیہ تھااوران کادعویٰ تھاکہ وہ دنیا کو جنگوں سے نجات دلائیں گے مگروہ اپنی پہلی ہی اسائمنٹ یعنی روس یوکرین جنگ بندکروانے میں ناکام رہے،پاک بھارت جنگ کااگر چہ وہ کریڈٹ لیتے ہیں مگریہ جنگ بھی انہوں نے اس وقت بندکروائی جب بھارت پاکستان کے ہاتھوں بے بس ہوچکا تھا۔ ایران اسرائیل جنگ میں انکے دوہرے پن سے ظاہرہوتاہے کہ وہ عالمی امن کے قیام میں سنجیدہ نہیں۔انہیں اپنے کردارپرنظرثانی کرنیکی ضرورت ہے۔
