28 مئی 1998ء کو پاکستان نے ایٹمی تجربات کرکے پوری دنیا بالخصوص بھارت کو پیغام دیا کہ وہ اپنی بقا اور سلامتی کے معاملے میں سنجیدہ اور پرعزم ہے۔ اس سے قبل بھارت نے 1974ء میں ایٹمی تجربات کرکے خود کو نیوکلیئر ممالک کی صف میں کھڑا کیا تھا، مگر 1998ء میں موجودہ انتہا پسند نام نہاد سیاسی جماعت بی جے پی کی حکومت نے ایک بار پھر ایٹمی تجربات کیے اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کو دھمکیاں دی جانے لگیں کہ اب پاکستان بھارت کے لیے ترنوالہ ہے اور وہ جب چاہے اسے ہڑپ کر سکتا ہے۔
بھارت کی روایتی دشمنی اور کشمیر کا مسئلہ
پاکستان چونکہ روزِ اول سے ہی بھارتی مخاصمت کا شکار چلا آ رہا ہے۔ بھارت نے آزادی کے پہلے ہی سال پاکستان پر جنگ مسلط کی، جب دونوں ممالک ہجرت اور مہاجرین کے گھمبیر مسئلے سے دوچار تھے۔ مگر اس جنگ میں ہزیمت اٹھانے کے بعد اس نے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور وہاں سے جنگ بندی کروانے میں کامیاب ہوا۔ اگر بھارت اقوام متحدہ میں یہ وعدہ نہ کرتا کہ ‘‘جیسے ہی دونوں ممالک کے حالات میں ٹھہراؤ آئے اور مہاجرین کا معاملہ نمٹ جائے تو کشمیری باشندوں کو حق خودارادیت دیا جائے گا’’ تو پاکستان کے لیے پورا کشمیر آزاد کروانا چنداں مشکل نہیں تھا۔
مگر بنئے نے سدا کی عیاری کو بروئے کار لاتے ہوئے اس وقت اقوام متحدہ میں وعدہ کیا اور بعدازاں ٹال مٹول، عیاریوں اور سازشوں سے کام لیتے ہوئے کشمیر پر ناجائز قبضہ مستحکم کرکے اسے اپنے اندر ضم کر لیا، جو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ مقبوضہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان ایک ایسا سلگتا ہوا مسئلہ ہے جسے حل کیے بغیر نہ دونوں طرف کے عوام سکون کا سانس لے سکتے ہیں اور نہ ہی خطے کو تباہ کن ہتھیاروں سے پاک کرنے کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔
دفاعی تقاضے اور ایٹمی پروگرام کی مجبوری
بھارت چونکہ ایک بڑا ملک ہے، اس کے پاس وسائل بھی زیادہ ہیں اور یہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بھی پاکستان سے کئی گنا بڑا ہے، اس لیے اسے ایٹمی ہتھیار بنانے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔ مگر پاکستان کے حالات بھارت سے یکسر مختلف ہیں، اس کے وسائل بھی انتہائی محدود ہیں اور بھارتی جارحیت کے مقابلے کے لیے اسے باامر مجبوری دفاع پر اپنی استطاعت سے بڑھ کر رقم خرچ کرنا پڑ رہی ہے۔
اگر پاکستان کے پڑوس میں بھارت جیسا کینہ پرور ملک نہ ہوتا، جس نے اٹھتر سال گزرنے کے باوجود پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور اسے نہ صرف نقصان سے دوچار کرنے بلکہ اس کا وجود ہی مٹانے کے درپے نہ ہوتا، تو پاکستان نہ ہی دفاع پر رقم خرچ کرتا اور نہ ہی اسے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی ضرورت پڑتی۔
قومی قیادت، قربانیاں اور ایٹمی کامیابی
پاکستان نے محدود وسائل بلکہ بے سروسامانی کے عالم میں ایٹمی پروگرام شروع کیا اور اپنا پیٹ کاٹ کر اسے جاری رکھا۔ اس سلسلے میں ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، بینظیر بھٹو، نواز شریف اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں اور سائنسدانوں نے انتہائی نامساعد حالات میں دن رات ایک کرکے ساری دنیا کی مخاصمت مول لے کر ایٹمی پروگرام جاری رکھا، بلکہ اپنے خون سے اس کی آبیاری کی، جس کے نتیجے میں پاکستان نے دنیا کو رطہء حیرت میں مبتلا کرتے ہوئے بھارتی ایٹمی تجربات کے جواب میں ایٹمی دھماکے کیے اور دنیا کی پہلی مسلمان ایٹمی ریاست کا رتبہ حاصل کیا۔
پرامن پاکستان اور بھارتی توسیع پسندی
پاکستان چونکہ پرامن بقائے باہمی کے اصولوں پر عمل پیرا ایک ذمہ دار ملک ہے، یہ کسی بھی ملک کے خلاف توسیع پسندانہ عزائم نہیں رکھتا بلکہ اس کی تمام دفاعی تیاریاں جارحیت سے محفوظ رہنے کے لیے ہیں۔ 14 اگست 1947ء سے 9 مئی 2025ء تک بھارت درجنوں بار پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کر چکا ہے، جسے پاک فوج اور پاکستانی قوم ناکام بنا چکے ہیں۔
ایٹمی تجربات سے پاکستان نے نہ صرف اپنا دفاع مستحکم کیا ہے بلکہ اس سے خطے میں طاقت کا توازن بھی برابر ہو چکا ہے، جو بھارت کے ایٹمی تجربات سے درہم برہم ہو گیا تھا۔ اگر پاکستان ایٹمی تجربات کرکے خود کو ایٹمی ریاست ثابت نہ کرتا تو کوئی بعید نہیں کہ ہندوستان اس پر حملہ کرکے اپنی سدا کی عداوت کی تسکین کا سامان کرتا۔
بھارت کی سازشیں اور پاکستان کا محفوظ ایٹمی نظام
بھارت جس کے ایٹمی ری ایکٹرز میں کئی حادثات ہو چکے ہیں، وہ یورپ، امریکہ اور دیگر ممالک کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے ڈرانے اور یہ تاثر دینے کی مذموم کوششیں کر رہا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ نہیں اور اس کے ایٹمی ہتھیار انتہاپسندوں کے ہاتھ لگنے کا خدشہ ہے۔ حالانکہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھارت سمیت دنیا کے تمام پروگراموں سے زیادہ محفوظ ہے۔
امریکہ، روس، فرانس اور بھارت کے ایٹمی ری ایکٹرز میں نقص سے کروڑوں افراد موت یا پھر موذی اور مہلک امراض کا شکار ہو چکے ہیں، مگر خدا کا شکر ہے کہ پاکستانی ایٹمی تنصیبات گزشتہ نصف صدی سے مکمل محفوظ ہیں اور ان میں کوئی حادثہ رونما نہیں ہوا۔
یومِ تکبیر: قومی عزم و حوصلہ کا دن
آج پوری پاکستانی قوم کامیاب ایٹمی تجربات کی چھبیسویں سالگرہ یعنی ‘‘یومِ تکبیر’’ اس عزم کے ساتھ منا رہی ہے کہ ملکی دفاع ہر چیز پر مقدم ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور اس ارفع و اعلیٰ مقصد کے لیے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔
وصال محمد خان