بھارت میں اس وقت دائیں بازو کے شدت پسند ہندتوا ء کی علم بردار بی جے پی /آر ایس ایس کی حکومت ہے جس کا واحد ایجنڈا بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانا اور خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنا ہے۔ اولین الذکر کے سلسلے میں بھارت میں اس وقت انتہا پسند ہندوؤں کو دیگر اقلیتوں خاص طورپر مسلمانوں کی نسل کشی کی نہ صرف چھوٹ دی جارہی ہے بلکہ نوجوانوں کو مسلمانوں کے قتل عام پر آمادہ کیا جارہا ہے۔ ثانی الذکر مقصد کے حصول میں پاکستان سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ بات ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بھارت نے کبھی پاکستان کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا اسی وجہ سے پاک بھارت تعلقات ہمیشہ سے ہی کشیدگی کا شکار رہےہیں۔ گذشتہ 75سالوں سے بھارت نے مختلف صورتوں میں پاکستان کے خلاف اپنی ریشہ دوانیاں جاری رکھیں۔ پاکستان کو ایک سازش اور کھلی جارحیت کے نتیجے میں دولخت کیا۔ بھارت پاکستان کے خاتمے تک اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔
11/26 کو ممبئی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات بھی انہی بھارتی سازشوں کے سلسلے کی ہی ایک کڑی تھے۔ یہاں بھارت کے انتہا پسند برہمنوں انتہائی مکارانہ طریقے سے پاکستان کے خلاف ایک طویل نفسیاتی جنگ یعنی (Psy Ops) کاآغاز کیا۔ اس دن مصروف ترین چھتر پتی شیواجی ٹرمینس نامی ریلوے اسٹیشن، دو فائیو اسٹار ہوٹل جن میں مشہورِ زمانہ اوبرائے ٹرائیڈینٹ اور ممبئی گیٹ وے کے نزدیک واقع تاج محل پیلس اینڈ ٹاورز شامل ہیں، لیوپولڈ کیفے جو ، سیاحت کیلئے ایک معروف ریسٹورنٹ ہے، کاما ہسپتال، یہودیوں کے مرکز نریمان ہاؤس، میٹرو ایڈلبس مووی تھیٹر اور پولیس ہیڈ کوارٹرز پر دہشت گردانہ حملے ہوئے۔یہ حملے دس نوجوانوں نے کیے اور یہ سلسلہ تین دن تک جاری رہا۔ حملوں میں 166 بھارتی شہری ہلاک اور تین سو زخمی ہو گئے۔ اس واقعے کی ایک غیر معمولی انفرادیت یہ تھی کہ ابھی دہشت گردوں کے خلاف بھارتی پولیس اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں کی کارروائیاں جاری ہی تھیں کہ بھارتی میڈیا اور سیاسیت دانوں نے اپنی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیا۔ کشمیر میں بھارتی قابض فوج کے خلاف کام کرنے والی پاکستانی جماعتوں جیسا کہ جیش محمد اور لشکر طیبیہ کو نشانہ بناتے ہوئے اس واقعے کے تانے بانے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ساتھ ملانے کی مذموم کوشش کی گئی۔ پاکستان نے نہ صرف اس سارے پراپگنڈے کا یکسر مسترد کر دیا بلکہ بھارت کی جانب سے فراہم کیے گئے نام نہاد ڈوزئیر کے جواب میں خود بھارت سے جواب طلب کیے جن پر پردہ ڈالنے کے لیے بھارت کے اہم حکومتی عہدوں پر فائزہندتواکے انتہاپسندوں نے یہ سارا کھیل رچایا تھا۔
بھارتی صوبے مہاراشٹر کے سابق آئی جی ایس ایم اشرف نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا کہ ممبئی کے واقعات میں ہیمنت کرکرے کو انتہا پسند ہندوﺅں نے ہی ہلاک کیا تھا۔ اس کتاب نے پورے بھارت میں ہلچل مچا دی اس کتاب میں دعوی کیا گیا ہے کہ ممبئی حملوں سمیت بھارت میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں ہندو برہمن ملوث ہیں سابق آئی جی نے اپنی کتاب کا نام (WHO KILLD KURKRAY) ”کرکرے کو کس نے قتل کیا“ رکھا ۔ اسی طرح جرمن مصنّف ایلس ڈیوڈسن کی ’’بھارت کی دھوکہ دہی، 26 نومبر کے ثبوتوں پر نظرثانی‘‘ نامی کتاب میں نہ صرف انکشافات کئے گئے ہیں بلکہ کتاب میں ممبی حملوں کے ثبوتوں اور شواہد کا تنقیدی جائزہ بھی لیاگیا ہے ۔اور اس میں واضح کہا گیا ہے کہ واقعہ سے متعلق بھارتی سکیورٹی اور خفیہ اداروں کے منظرِ عام پر لائے جانے والے حقائق درست نہیں۔حال ہی میں معروف جرمن مصنف ایلس ڈیوڈسن کی تازہ کتاب کے مندرجات سے ممبئی حملے بھارت کی اپنی منصوبہ بندی اور اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ اس کے گٹھ جوڑ کا راز عیاں ہو گیا۔ یہ کتاب پاکستان کے اس مؤقف کو تقویت بخشتی ہے کہ ممبئی حملوں کا سارا معاملہ مشکوک ہے اور اس میں بھارت کے خود ملوث ہونے کے امکانات ہیں۔
اس صدی کی آغاز پر 9/11 کے بعد ایک بدلی ہوئی دنیا میں بھارت کو موقعہ ملا کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف اپنی جارحانہ جنگ کو آگے بڑھائے۔ اس سلسلے میں بھارت نے پاکستان کے خلاف دہشتگردی، مسلح شورش اور پاکستان افواج پر نہ ختم ہونے والے حملوں کا سلسلہ شروع کروایا اور ان سب کے لیے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسی عالمی دہشت گرد تنظیموں کو مسلسل افغانستان کی سرزمین پر مالی وسائل مہیا کیے۔ اور 11/26 کو بنیاد بنا کر پاکستان کو ہی ان تمام دہشت گرد کارروائیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
ان حملوں کی بھارتی سرکار کی نگرانی میں ہونے والی تحقیقات پر عالمی مبصرین درجنوں سوال اٹھا چکے ہیں مگر آج تک ان سوالوں کا جواب نہیں دیا گیا۔ الٹا بھارت نے اسی چال کو چلتے ہوئے 2019 میں کشمیر کے علاقے پلوامہ میں اپنے ہی فوجی مستقر پر ایک “دہشت گرد” حملہ کروایا اور پھر پاکستان پر حملہ کر دیا، مگر پاکستان کی جوابی کارروائی نے جلد ہی بھارت کو یہ بات ازبر کروا دی کہ بھارت کو اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈوں کے استعمال کی بجائے پاکستان کے ساتھ ایک بامعنی بات چیت کے ذریعے کشمیر سمیت دیگر حل طلب مسائل کا حل نکالنا ہوگا تاکہ خطے میں امن و سلامتی پروان چڑھے اور اربوں لوگ سکھ کا سانس لے سکیں!