حال ہی میں ایوبیہ نیشنل پارک میں جب شجر کاری کے لئے کھدائی کی جارہی تھی تو اس دوران ایک ٹنل دریافت کی گئی جسے برطانوی دور حکومت میں ڈونگہ گلی اور مری تک کے شارٹ کٹ سفر کے لئے بنایا گیا تھا۔
۔ کھدائی کرنے والوں کا کہنا تھا کہ” جب ہم کھدائی کررہے تھے تو ہمیں 1891 کا نشان نظر آیا اور جب مزید کھدائی کی گئی تو یہ برطانوی دور حکومت کا شاہکار نظر آ یا۔”
یہ ٹنل 1891 میں برطانوی دور حکومت میں تعمیر کی گئی تھی لیکن بے توجہی اور کوڑا کرکٹ کے باعث کہیں دب گئ اور اسکا نام و نشان ہی مٹ گیا تھا۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان میں ایسی اور کتنی ٹنلز ہیں جو کوڑا کرکٹ کے اندر تاحال چھپی ہیں؟ جس وقت کوڑا کرکٹ پھینکا جارہا تھا اس وقت پارک انتظامیہ نے بے توجہی کیوں کی؟ لوگوں نے بھی اس بات کا خیال نہ کیا کہ ایک ٹنل کتنی مشکل سے پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی جاتی ہے اور عوام کا ہی پیسہ ایسے ترقیاتی کاموں میں لگتاہے پھر کیا ہمیں اپنے پیسے پر بھی رحم نہیں آتا؟
جب کوڑا دان گلی کے نکڑ پر پڑا ہوتا ہے اور ہم کسی خالی پلاٹ پر کچرا پھینکنا پسند فرماتے ہیں پھرشکایت کرتے ہیں کہ حکومت نےکیا ہی کیا ہے پھر ہم بھول جاتے ہیں کہ حکومت نے جو جگہ جگہ کوڑا دان رکھوائے ہیں وہ سجاوٹ کے لیے نہیں بلکہ کوڑاپھینکنے کے لیے ہیں۔
clean
آج اگر پاکستان کی گلی گلی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم پڑھی لکھی جاہل قوم ہیں ۔ میں نے کئی گاڑیوں سے گنڈیریوں اور مالٹے کے چھلکوں کو گرتے دیکھا ہے۔ میں نے کئی سکولز اور کالجز کی گاڑیوں میں بچوں کو بھُٹا کھا کر گراتے دیکھا ہے۔
میں بھی کبھی ان میں سے ایک تھی ایک بار فرسٹ ائیر میں، میں نے بھُٹا کھایا اور باہر گرانے لگی تو گاڑی میں ایک باجی تھی انکا نام مہوش تھا انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اوربھُٹے کا تُکا مجھ سے لیکر اپنے بیگ میں ڈال دیا اور کہا یہ ہمارا ملک ہے ہم اسے صاف نہیں رکھیں گے تو کون رکھے گا۔یہ الفاظ میرے ذہن پر ایسے چسپاں ہوئے کہ وہ دن اور آج کا دن میں نے کوڑا کرکٹ کوڑےدان کے علاوہ کہیں نہیں گرایا۔ اور یہ کہتے ہوئے مجھے آج فخر محسوس ہورہا ہے کہ میں نے اس معاملے میں اپنے ملک کے ساتھ خیانت نہیں کی
تو پہلی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم کوڑے کو صحیح ٹھکانے لگائیں
ہر مقام چاہے وہ پارک ہو ، ہسپتال ہو، تعلیمی ادارہ یا کوئی اور جگہ اسکی انتظامیہ کا بھی فرض بنتا ہے کہ اس جگہ کی صفائی کا خیال کرے اور وہاں کوڑا کرکٹ پھیلانے والوں پر جرمانے عائد کرے کیونکہ ترقی یافتہ ممالک کی صفائی کے اعلیٰ معیار کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ جرمانے عائد کرتے ہیں اگر کوئی کوڑا دان کے علاوہ کہیں اور کچرا گرائے۔
تیسری بڑی ذمہ داری ان لوگوں کی ہے جو اس معاشرے کو جینا سکھاتے ہیں ، سب سے پہلے والدین، اساتذہ ، معلم ، لکھاری، براڈکاسٹر نیز ہر وہ شخص جس سے لوگ متاثر ہوتے ہیں یا انکی بات کو ترجیح دیتے ہیں ایسے لوگوں کے کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فالورز کو جینے کا ڈھنگ سکھائیں اور ذمہ دار شہری بنائیں۔
مجھے پورا یقین ہے کہ آپ جب بھی باہر کوڑا گراتے ہونگے تو دل میں خلش ضرور اٹھتی ہوگی، ایک آواز ضرور آتی ہوگی کہ یہ غلط ہے
اب بس اس غلطی کو دوہرانا نہیں اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنے ایمان کے نصف حصے کا فرض ہی نبھا لیں