ایک مفرور سابق وزیر کی غلط بیانی
عقیل یوسفزئی
سوات سے تعلق رکھنے والے ایک سابق وفاقی وزیر نے اپنی ایک ٹویٹ میں حقائق کو مسخ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سوات اور بعض دیگر علاقوں میں پاکستان کے ریاستی ادارے ایک سازش کی تحت طالبان وغیرہ کو اس لیے دوبارہ لے آئے کہ ان کی پارٹی کو ناکام اور بدنام کیا جاسکے. مذکورہ مفرور رہنما نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس لیے کافی عرصہ سے روپوش ہیں کہ ایک کالعدم تنظیم ان کو ہلاک کرنا چاہتی ہے وغیرہ وغیرہ
پہلی بات تو یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ کسی اور نے نہیں بلکہ ان کے لیڈر اور ان کے سابق وزیراعظم نے مذاکرات کا آغاز کیا تھا اور آن دی ریکارڈ موصوف کے علاوہ ان کے صدر نے بھی یہ کہا تھا کہ وہ اتنے ہزار طالبان کو افغانستان سے پاکستان لاکر بسانا چاہتے ہیں اور اسی پلان کے تحت انہی کے صدر مملکت نے 100 سے زائد طالبان کو رہا کروا دیا تھا.
دوسری بات یہ کہ شاید موصوف یہ بھول گئے ہیں کہ جس وقت سواتی طالبان نے تحصیل مٹہ میں ایک پولیس پارٹی پر حملہ کیا اور ایک فوجی افسر کو یرغمال بنایا اس وقت خیبر پختون خوا میں کسی اور کی نہیں بلکہ انہی کی پارٹی کی حکومت تھی اور یہ پہلی کارروائی ان کے وزیراعلیٰ کے آبائی حلقے میں کی گئی تھی. یہ انہی کی حکومت تھی جن کے وزراء پر طالبان کو بھتہ دینے کے سنجیدہ الزامات لگتے جارہے تھے. اس لئے وہ حقائق مسخ کرنی کی بجائے اس وقت کی اپنی صوبائی حکومت کو اس کا ذمہ دار قرار دیں تو زیادہ بہتر ہوگا.
یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ اسی حکومت کے ترجمان نے ایک بار کہا تھا کہ کچھ طالبان اپنے ایک رشتہ دار کی عیادت کرنے سوات آئے تھے. سابق وفاقی وزیر کو یہ یاددہانی بھی کرائی جائے کہ اے پی ایس کا افسوس ناک واقعہ بھی انہی کی صوبائی حکومت کے دور اقتدار میں وقوع پذیر ہوا تھا. ساتھ میں یہ بھی کہ جاری جنگ میں اب کے بار 95 فی صد حملے فورسز خصوصاً کے پی پولیس پر کرائے گئے ہیں اس لیے یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہ ریاستی اداروں کو اس صورت حال کا ذمہ دار قرار دیا جائے. ان کی صوبائی حکومت میں تو وزراء پولیس افسران اور جوانوں کی جنازے میں شرکت کرنے سے بھی گریز کرتے رہے.
جہاں تک موصوف کی روپوشی کا تعلق ہے اس کا پس منظر ایک معروف اینکر پرسن کو پشاور کے راستے دبئی بھیجنے، ان کی لیپ ٹاپ کی موصوف کے ساتھ موجودگی کی اطلاعات اور اس کے بعد 9 مئ کے واقعات سے ہے نا کہ طالبان کی ان کی مخالفت سے.
پاکستان بالخصوص خیبر پختون خوا میں درجنوں سیاسی رہنماؤں، مشران اور افسران،جوانوں نے اس جنگ میں نہ صرف جانیں قربان کی ہیں بلکہ سنگین خطرات کے باوجود اب بھی لاتعداد لوگ ڈٹے ہوئے ہیں. ان میں سے کتنے موصوف کی طرح روپوش ہوگئے ہیں وہ اس کا بھی ایک جائزہ لیں۔