عقیل یوسفزئی
سال 2023 پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا کی سیکورٹی کے حوالے سے بہت مشکل سال ثابت ہوا. اگر ایک طرف 2022 کی طرح اس برس صوبہ پختونخوا اور اس کے بعد بلوچستان کو ریکارڈ دوطرفہ دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنایا گیا تو دوسری طرف پاکستان کے نئے آرمی چیف سید عاصم منیر کے چارج سنبھالنے کے بعد فورسز نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ریکارڈ کارروائیاں کیں اور غالباً اس یکسوئی یا واضح موقف ہی کا ردعمل تھا کہ شدت پسند گروپوں خاص طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے نہ صرف حملوں کی تعداد بڑھانے کی پالیسی اختیار کی بلکہ اس نے پاک فوج سمیت دیگر سیکیورٹی اداروں کو بطور خاص نشانہ بنایا. اگر ایک طرف ٹی ٹی پی کے حملے بڑھے تودوسری جانب داعش نے بھی پشاور اور باجوڑسمیت تقریباً 49 چھوٹی بڑی کارروائیاں کیں. اسی طرح جہاں ایک طرف بلوچستان کی بلوچ بیلٹ میں قوم پرست مزاحمت کاروں نے کارروائیاں تیز کیں تو دوسری جانب ٹی ٹی پی اور اس کی بعض ذیلی یا اتحادی گروپس نے بلوچستان کی پشتون بیلٹ کو متعدد بار نشانہ بنایا. اس ضمن میں 3 بڑے حملوں میں ژوب میں موجود سیکیورٹی اداروں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جس کی تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ اس میں متعدد افغان باشندے بھی شامل رہے. اور غالباً اسی کا نتیجہ تھا کہ نومبر میں پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغانیوں کو نکل جانے کا فیصلہ کیا گیا. دسمبر کے تیسرے ہفتے تک پختونخوا اور بلوچستان سے مجموعی طور پر تقریباً 4 لاکھ 75 ہزار افغان مہاجرین کو نکالا گیا اور یہ سلسلہ اس کے بعد بھی جاری رکھا گیا. پاکستان کے رویے میں اس وقت سختی واقع ہوگئی جب 6 ستمبر 2023 کو ٹی ٹی پی نے 3 مختلف مقامات پر افغان سرزمین سے چترال پر حملہ کیا اور اسی روز افغانستان کے سرحدی حکام نے طورخم بارڈر پر حملہ کیا. دونوں مقامات پر حملہ آوروں کو سخت جواب دیا گیا. تاہم پاکستان اور افغانستان کی تلخی میں بے پناہ اضافہ ہوا کیونکہ یہ حملے ٹی ٹی پی والے افغانستان کی سرزمین سے کررہے تھے. نوبت یہاں تک آپہنچی کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان کے تقریباً 6 ان مبینہ علاقوں پر ہوائی حملوں کی اطلاعات زیرِ گردش کرنے لگیں جہاں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کی نشاندہی کی گئی تھی.
سال 2023 کے دوران پچھلے برس کے مقابلے میں فورسز کے ساتھ ساتھ سویلین اور سیاسی ورکرز، رہنماؤں کو بھی دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنایا گیا.
سیکورٹی چیلنجز کی صورتحال کیا رہی اس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس برس صرف پختونخوا میں 580 حملے کئے گئے. سال 2022 کے دوران یہ تعداد 495 تھی. ان حملوں میں 475 لوگ شہید ہوئے تو 1070 زخمی ہوگئے. خیبر پختونخوا کے تقریباً 26 اضلاع میں کارروائیاں کی گئیں تاہم جو شہر یا علاقے 2023 میں مسلسل حملوں کی ذد میں رہے ان میں پشاور کے علاوہ قبائلی اضلاع اور ان سے ملحقہ جنوبی اضلاع سرفہرست رہے.
مثال کے طور پشاور کو اس برس 54 حملوں کا نشانہ بنایا گیا جن میں 6 کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ داعش خراسان نے کرائے تھے. سب سے زیادہ حملے ڈیرہ اسماعیل خان میں کرائے گئے جن کی تعداد 87 رہی. ان میں ماہ دسمبر کے دوران کیا گیا وہ خودکش حملہ بھی شامل تھا جس میں ایک فوجی کیمپ کو نشانہ بنایا گیا اور چھت گرنے سے پاک فوج کے تقریباً 2 درجن شہید ہوئے. ردعمل میں فورسز نے 27 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا جبکہ اس حملے میں ملوث تقریباً 9 مزید افراد کو دسمبر کے آخر میں گرفتار یا ہلاک کر دیا گیا جن میں تقریباً 4 افغان باشندے بھی شامل بتائے گئے. وزیرستان 79 حملوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا جبکہ خیبر 72 اور بنوں 33 حملوں کے حساب سے چوتھے نمبر پر رہا.
ایک اور رپورٹ کے مطابق سال 2023 میں خیبر پختونخوا میں پاکستان آرمی کے تقریباً 95 نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا جبکہ 130 کے لگ بھگ زخمی ہوگئے کیونکہ پاک فوج نے اس برس فرنٹ پر رہ کر ریکارڈ آپریشن کئے. پختونخوا پولیس کے تقریباً 180 جوان اور افسران شہید جبکہ 410 زخمی ہوگئے. فرنٹیئر کانسٹیبلری بھی حملوں کی ذد میں رہی. ایک حساس ادارے کے ایک اعلیٰ ترین افسر کو بھی وزیرستان میں دوران سفر شہید کیا گیا.
اس برس پاکستان کی سیکورٹی فورسز بالخصوص پاک فوج نے بھی پختونخوا میں انٹیلی جنس بیسڈ ریکارڈ آپریشن کئے جن کی تعداد 2000 کی لگ بھگ رہی. مشترکہ کارروائیوں کے نتیجے میں صرف پختونخوا میں تقریباً 560 دہشت گردوں اور حملہ آوروں کو ہلاک کیا گیا جن میں 36 کمانڈرز بھی شامل تھے. 38 خطرناک کمانڈروں سمیت تقریباً 800 شدت پسندوں، دہشتگردوں کو گرفتار کیا گیا. ان میں دستیاب ریکارڈ کے مطابق 33 افراد کو مختلف عدالتوں سے سزائیں بھی دلوائی گئیں. ایک اور سیکورٹی رپورٹ کے مطابق 2023 کے دوران پختونخوا میں سیکیورٹی اداروں نے تقریباً 100 پلان کردہ حملوں کو ناکام بنایا جن میں تقریباً ایک درجن سے زائد داعش خراسان کے پلان کردہ حملے شامل تھے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ داعش کے خلاف سب سے زیادہ کارروائیاں پشاور میں کی گئیں. فورسز کی ایسی ہی کارروائیاں بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں بھی کی گئیں. 2023 کے دوران ایک اور ٹرینڈ یہ دیکھنے کو ملا کہ شدت پسندوں نے تقریباً تمام حملوں میں جدید امریکی اسلحہ استعمال کیا اور پولیس فورس کو سب سے زیادہ جانی نقصان اس اسلحہ کے استعمال سے پہنچا. اسی تناظر میں 2023 کے وسط میں آرمی چیف اور کور کمانڈر پشاور کی ذاتی دلچسپی اور ہدایات کے مطابق سی ٹی ڈی سمیت پختونخوا پولیس کو جدید سہولیات فراہم کی گئیں اور پاکستان آرمی کی جانب سے پختونخوا بالخصوص قبائلی علاقوں کی پولیس کی جدید انداز میں ٹریننگ بھی کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کہ صرف نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں پختون خوا کے 12 مختلف اضلاع میں پولیس نے اپنے تھانوں اور چیک پوسٹوں پر ہونے والے حملوں کو ناکام بنایا.
حملوں کی منصوبہ بندی اور ریکروٹنگ کے علاوہ ان کی فنڈنگ کا تقریباً تمام مکینزم چونکہ افغانستان میں موجود تھا اس لیے پاکستان کا دباؤ کشیدگی کی شکل اختیار کرگیا اور شاید اسی کا نتیجہ رہا کہ ذبیح اللہ مجاہد اور دو دیگر اعلیٰ افغان حکام نے دسمبر کے تیسرے ہفتے میں اعتراف کیا کہ ان کی عبوری حکومت نے بعض حملوں اور سرگرمیوں کے ردعمل میں ٹی ٹی پی کے تقریباً 40 افراد کو گرفتار کرلیا ہے.
دوسری جانب امریکا اور بعض دیگر ممالک کی تشویش میں بھی اس برس غیر معمولی طور پر اضافہ ہوا. ایک رپورٹ میں امریکہ نے انکشاف کیا کہ تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں کے باعث جہاں پاکستان کی سیکورٹی کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوا ہے وہاں اس رپورٹ میں کھلے عام کہا گیا کہ افغانستان کی طالبان حکومت کی کمزوری یا سرپرستی کے باعث القاعدہ اور داعش کی قوت اور تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے جو کہ امریکہ کے بقول خطے کے علاوہ پوری دنیا کے لئے خطرہ ہے.
دسمبر 2023 کو اس تناظر میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان پھر سے قربت اور اعتماد سازی میں اضافہ ہوا. پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر اپنی ٹیم کے ہمراہ امریکی دورے پر روانہ ہوگئے جہاں انہوں نے نہ صرف یہ کہ امریکہ کے سیکرٹری خارجہ، سینٹکام کے کمانڈر اور دیگر اعلیٰ ترین فوجی، سول عہدے داروں سے ملاقاتیں کیں اور مذاکرات کئے بلکہ انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت متعدد دیگر اہم شخصیات سے بھی ملاقاتیں کیں اور امریکی میڈیا اور سفارتی حلقوں میں اس قسم کی رپورٹس گردش کرنے لگیں کہ پاکستان اور امریکہ خطے کی سیکورٹی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ایک نئے کوآپریشن اور روڈ میپ پر کام کرنے لگے ہیں.دوسری طرف افغان حکومت نے دسمبر کی وسط ہی میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے اعلیٰ سطحی رابطے کرتے ہوئے ان کو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی پیشکش کی تاہم اس کے ردعمل میں پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے واضح انداز میں موقف اختیار کیا کہ پاکستان تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کسی صورت مزاکرات یا رابطہ کاری نہیں کرے گا. اس تمام پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو ثابت یہ ہوا کہ 2023 پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک فیصلہ کن سال ثابت ہوا تو غلط نہیں ہوگا.
One Response
It’s not just a piece of information rather established efforts by the writer ma shah Allah.