سانحہ کرم کا پس منظر اور درپیش مسائل کا حل
عقیل یوسفزئی
قبائلی علاقے ضلع کرم میں نامعلوم قاتلوں نے ایک سکول میں گھس کر 7 اساتذہ کو شہید کیا جس نے پورے ملک کو سوگوار کردیا ہے اور سیاسی، عوامی حلقوں نے اس افسوسناک واقعہ پر شدید احتجاج کیا ہے جو کہ ایک فطری عمل ہے. فائرنگ کا یہ واقعہ تری منگل نامی علاقے میں پیش آیا جس کے فوراً بعد سیکیورٹی اداروں نے قاتلوں کی تلاش شروع کردی ہے اور مقامی انتظامیہ کے مطابق واقعے میں ملوث بعض افراد کی نشاندہی ہوچکی ہے اور ان کی تلاش جاری ہے. ڈپٹی کمشنر کرم نے ایک ویڈیو پیغام میں یقین دہانی کرائی ہے کہ اس واقعہ کی نہ صرف شفاف طریقے سے انکوائری ہوگی اور قبائلی مشران کو اعتماد میں لیکر تنازعات کا حل نکالا جائے گا بلکہ قاتلوں کو مثالی سزائیں بھی دی جائیں گی.
ان سمیت دیگر حکام کی معلومات کے مطابق یہ واقعہ علاقے کے مخصوص پس منظر کے باعث رونما ہوا ہے اور قاتلوں نے زمینی تنازعہ کے سبب یہ شرمناک حرکت کی. حکام کے مطابق اس سانحہ کو دھشت گردی یا کسی فرقہ وارانہ تصادم کا نتیجہ قرار دینا درست نہیں ہے اور یہ کہ زمینی تنازعہ کے پس منظر میں ان کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں اس لیے اسی کی بنیاد پر تفتیش کے عمل کو آگے بڑھایا جارہا ہے.
دوسری طرف سیاسی اور عوامی حلقوں نے ایسے واقعات کو علاقے کے امن کے لئے خطرناک قرار دیتے ہوئے اس کی ذمہ داری سال 2018 سے 2022 تک کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ دونوں سابق حکومتوں نے کرم سمیت کسی بھی قبائلی علاقے کے انتظامی معاملات بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی اور ان مسائل میں زمینی تنازعات کا دیرینہ ایشو سرفہرت تھا. ان کے مطابق تقریباً ہر قبائلی ضلع میں کیء دھائیوں سے اراضی کی حدبندی کے تنازعات موجود ہیں اور متعدد بار مختلف علاقوں میں مختلف گروہوں اور قبائلیوں کے درمیان خونریز تصادم ہوتے رہے ہیں تاہم فاٹا مرجر کو اتنا عرصہ گزرے باوجود سول اداروں نے ان مسائل کے حل پر توجہ نہیں دی.
عوامی حلقوں کے مطابق وہ کسی بھی واقعے کی آڑ میں کرم میں ماضی کی طرح مسلکی اور فرقہ کی بنیاد پر امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، ریاستی اداروں کے ساتھ تعاون کریں گے اور ترقی کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کریں گے.
عوام کا مثبت طرزِ عمل اپنی جگہ تاہم ایسے مزید واقعات کا راستہ روکنے کے لیے نہ صرف قاتلوں کی فوری گرفتاری لازمی ہے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ زمینی تنازعات سمیت برسوں کے دوسرے مسائل کے حل کیلئے سول اداروں کو مضبوط کیا جائے اور متاثرین کے خاندانوں کو جذبہ خیرسگالی کے طور پر مناسب معاوضہ سمیت دیگر مراعات دی جائیں تاکہ ان کی دادرسی ہو.