پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز پشاور کا دورہ کیا۔ وہ ورکرز کنونشن میں شریک ہوئے تو دوسری طرف انہوں نے باچا خان مرکز میں ایک پریس بریفنگ اور عشائیہ میں بھی شرکت کر لی۔ پی پی پی اور اے این پی 2013 سے 2018 کے درمیان مرکز پختونخوا اور سندھ میں شریک اقتدار رہی ہیں تاہم ماضی میں ان کے تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ولی خان نے بوجوہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جنرل ضیاءالحق سے اتحاد کرلیا تھا اور حیات شیرپاؤ کی شہادت کی ذمہ داری بھی ان پر ڈالی گئی تھی۔
دونوں پارٹیاں بوجوہ پی ڈٰ ی ایم سے الگ ہوئی ہیں اسی لئے اب ان کے درمیان ایک مجوزہ اتحاد کی باتیں زیر گردش ہیں تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ سندھ جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے میں اے این پی نہ صرف پی پی پی کی کھل کر مخالفت کر رہی ہیں بلکہ حال ہی میں اس پارٹی نے 12 مئی 2007 کے سانحہ کی ذمہ دار ایم کیو ایم کے ساتھ پیپلزپارٹی کے خلاف محاذ بھی قائم کیا ہے اور یہ باتیں بھی زیرگردش ہیں کہ ایم کیو ایم اور اے این پی اگلے الیکشن میں اتحاد کرنے والی ہیں۔ صوبائی صدر شاہی سید پیپلز پارٹی کا کٹر مخالف ہے مگر پختونخوا میں صورتحال یکسر مختلف ہے جس نے کارکنوں کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ مثلاً سال 2018 کے الیکشن میں شاہی سید نے 6000 جبکہ پیپلزپارٹی کے احمدعلی جان نے کراچی کے ایک حلقہ سے 26 ہزار ووٹ حاصل کئے نتیجہ پی ٹی آئی کے امیدوار کی جیت کی صورت میں نکل آیا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایم این اے علی وزیر کو گرفتار کیا ہے حالیہ دھرنے میں پی ٹی آئی اور کارکن مدعی بن کر دکھائی دیے مگر بلاول بھٹو نے پریس بریفنگ کے دوران عجیب قسم کا موقف اپنایا۔ یہی پالیسی اے این پی کی بلوچستان میں بھی رہی ہے۔
بلوچستان میں جب سال 2018 کی حکومت قائم ہوئی تو اے این پی نے اسے اسٹیبلشمنٹ کے قائم کردہ حکومت کا نام دیا تاہم حیرت کی بات یہ رہی کہ اسی حکومت کی پارٹی نے نہ صرف اسمبلی میں حمایت کی بلکہ اس کی کابینہ میں بھی شامل ہوئی۔ میر کمال خان کی حکومت کے ساتھ رہی مگر جب بازی پلٹ گئی تو اے این پی قدوس بزنجو کی حامی بن گئی اور یہ پارٹی اب بھی صوبائی کابینہ کا حصہ ہے۔
اے این بی لمبے عرصے تک ایم کیو ایم کی نہ صرف مخالف رہی بلکہ دونوں پارٹیوں کی باہمی کشیدگی کے باعث سندھ میں سینکڑوں پشتون زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ عجب تماشہ یہ ہے کہ آج یہی پارٹی ایم کیو ایم کے ساتھ پیپلزپارٹی کے خلاف میدان میں کھڑی ہے۔
تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ سیاست کو سیاستدانوں ہی نے بے توقیر کرکے رکھ دیا ہے اور یہ محض انکے مفادات تک محدود ہو گئی ہے تاہم الزامات دوسروں پر لگائے جاتے ہیں۔