شمس مومند
یہ انیس سو تریانوے کی بات ہے ہم نئے نئے کالج سے فارغ ہوئے تھے۔ اپنے ایک دوست کے حجرے میں سیاست پر گفتگو ہو رہی تھی۔ عینک لگائے ایک تجربہ کار ڈاکٹر صاحب نے کہا آج کل کے نوجوان سیاست کو اپنے ہاتھ میں لینے اور ملک کا بیڑا غرق کرنے کے درپے ہیں۔کہتے ہیں کہ بزرگوں نے کیا کیا ہیں؟میں تو کہتا ہوں کہ ان جذباتی لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیا جائے۔ مجھے اس کی بات پر غصہ آیا میں نے کہا ٹھیک تو کہتے ہیں آپ لوگ اپنا دور گزار چکے ہیں۔ ملک مسائل میں گھرا ہوا ہے میرے خیال میں تو نوجوانوں کو جیل میں ڈالنے کی بجائے پچاس سال سے زائد عمر کے تمام افراد کو تہہ تیغ کیا جائے تاکہ زمام اقتدار نوجوان سنبھال سکے اور اس ملک کو کوئی نئی راہ دکھائے۔
آج جب سیاسی شعور کے دعویدار جذباتی نوجوانوں کو سنتا اور دیکھتا ہوں جب وہ ملک کے مسائل اور اس کے شارٹ کٹ حل پر مخلصانہ مگر جذباتی اور سطحی بات کرتے ہیں تو غصہ بہت آتا ہے مگر جب اپنا انیس سو تریانوے کا دور اورڈاکٹر صاحب کو دیا گیا اپنا جواب یاد آتا ہے تو سوچ میں پڑتا ہوں کہ آخر اس ایج گیپ(دور کے فاصلے) کو کس طرح پاٹا جائے۔اسکو کس طرح ممکن بنایا جائے کہ نوجوان خود کو عقل کل سمجھنے کی بجائے اپنے بزرگوں اور تجربہ کار لوگوں سے استفادہ کرنے پر آمادہ ہو اور بزرگ و تجربہ کار لوگ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ہیچ سمجھنے کی بجائے ان کو سننے ان کے نئے نئے علوم، توانائی اور جذبے کو نیا رخ دیکر ملک وقوم کے فائدے کے لئے استعمال کر سکے۔
بد قسمتی سے پاکستان میں چھوٹے بڑے امیر غریب عالم جاہل، تعلیم یافتہ ان پڑھ سب کا پسندیدہ موضوع سیاست ہے۔ کوئی اپنے کام کو سمجھے نہ سمجھے کوئی بات نہیں مگر سب کا دعوی ہے کہ وہ سیاست کو سیاست دانوں سے بہتر سمجھتے ہیں۔خاص کر جب پی ٹی آئی والوں سے بات ہوتی ہے تو ان کا دعوی ہے کہ عمران خان نے نوجوانوں کو سیاسی شعور دیا ہے اور نوجوانوں کا سیاسی شعور یہ ہے کہ باقی سب چور ڈاکو کرپٹ بے اصول اور غلطی پر ہیں صرف اور صرف ہم ٹھیک ہیں۔ عمران خان حکومت کے آخری وقت میں سنگین غیر آئینی اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے جب نوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو حیرانگی ہوتی ہے کہ یہ کیسا سیاسی شعور ہے جس نے نوجوانوں کو اکیسویں صدی کے ایک سیاسی رہنماء کو دیوتا بنانے پر مجبور کردیا ہے جس نے نوجوانوں کو آئین قانون جمہوریت کیساتھ جوڑنے کی بجائے صرف اور صرف اپنی ہی پارٹی کیساتھ جوڑدیا ہے۔ یہ کیسا سیاسی شعور ہے جو اپنے سیاسی قائد کو عام انسان سمجھتے ہی نہیں ان کی غلطیاں انہیں نظر ہی نہیں آتی ہے ایسا لگتا ہے جدید دور کے نوجوان اپنے اپنے سیاسی قائدین کے کارکن نہیں بلکہ ان کے مذہبی پیرو کار بن گئے ہیں کیونکہ مذہب میں تنقید کی اجازت نہیں ہوتی ہے تقلید کا حکم ہوتا ہے۔ پہلے نوجوان صرف عمران خان کے عاشق ہوتے تھے ان کو اپنے معشوق کی خامیاں بھی خوبیاں لگتی تھی، ان کی دیکھا دیکھی اب سب سیاسی کارکنوں نے یہی طریقہ اپنا لیا ہے۔ جیالے ایک زرداری سب پہ بھاری کا راگ الاپ رہے ہیں اور زرداری کے کرپشن کی داستانیں ایم کیوں ایم کیساتھ ملکر کراچی کو نوچنے ملک ریاض کو نوازنے کی باتیں محض الزامات قراردیتے ہیں مسلم لیگ کے متوالوں نے نواز شریف کو سول سپر میسی کا استعارہ بناکر ان کے سو خون معاف کردئے ہیں۔ جنرل ضیاء کی فرمانبرداری سے لیکر سپریم کورٹ پر حملے اور پاناما سمیت درجنوں کرپشن سکینڈلز ان کے ہاں درخور اعتناء نہیں ہیں۔جبکہ مولانا فضل الرحمن کے حامی تو انہیں پختونخوا یا پاکستان کا نہیں بلکہ عالم اسلام کا لیڈر قراردیتے ہیں۔ مولانا کی سیاسی بصیرت سے انکار نہیں مگر سیاسی مفادات کے لئے غریب اور نظریاتی کارکنوں کی قربانیاں دینا اور صاحب ثروت مالداروں کو عہدوں سے نوازنا کوئی ان سے سیکھے۔ اس کے باوجود ان کے مذہبی ووٹ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔اے این پی کے کارکن تو اب تک باچا خان کے نظریات اور ولی خان کے اصول پسندی کو بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختاری اور صوبے کانام پختونخوا رکھنے میں کامیابی سے وہ بزعم خویش قوم پرستی کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔ ان کے نوجوان کارکن معصوم شاہ اور اعظم خان کے کرپشن کے کارنامے بھلانے اوراب ایمل ولی خان کی بونگیاں بھی نہ صرف ہنسی خوشی برداشت کر رہے ہیں بلکہ ان کا دفاع بھی کرتے ہیں۔ یہ سب لوگ اپنے آپ کو درست باقی سب کو غلط قراردیتے ہیں یعنی سیاسی ڈائیلاگ کی بجائے ایک سیاسی ڈیڈلاک پیدا ہوگیا ہے۔ہر پارٹی ورکروں نے سوشل میڈیا پر اپنے لئے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالی ہے۔ جہاں صرف اپنے سیاسی نظریات اور کاموں کی تعریف ہوتی ہے اور دوسروں پر تنقید کے نئے نئے زاویئے تلاش کئے جاتے ہیں۔ ایک پارٹی کے کارکنوں کا دوسرے پارٹی کے کارکنوں کیساتھ کوئی مثبت مباحثہ، کوئی علمی نشست، کوئی نظریاتی یا اصولی ملاپ نظر ہی نہیں آتا ہے۔
میرے بعض دوست فرماتے ہیں کہ تعلیم زیادہ ہوگی تو سیاسی شعور میں خود بخوداضافہ ہوگا۔ میں اس بات سے قطعی اختلاف کرتا ہوں۔کیونکہ دنیاوی تعلیم دے تو بندہ پی ٹی آئی کا کارکن بنتا ہے جو عقل کل بن کر باقی سب کو چور ڈاکو اور غدار قرار دیکر مرنے مارنے پر تل جاتا ہے، دینی تعلیم دے تو بندہ طالب بنتا ہے، اپنے سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف فتوی صادر کرتا ہے خود ہی مدعی جج اور جلاد بنتا ہے اور دوسرے کاکام تمام۔ مطالعہ پاکستان پڑھائے تو بندہ حب الوطنی کے زعم میں فوج کو مقدس گائے بناکر ان کو پوجنے لگتا ہے اور آئین سے ماوراء پورا ملک ان کے حوالے کرنے پر تل جاتا ہے۔ قوم پرستی کی تعلیم دے تو تہذیب نرگسیت کا شکار ہوتا ہے اور ترقی کے لئے اتحاد اور محنت کی بجائے دوسروں سے نفرت کو ضروری سمجھتا ہے۔ علی ھذالقیاس۔
مختصر یہ کہ نفرت بیگانگی بے اتفاقی انتہا پسندی اور افراتفری کے اس دور پر آشوب میں ہمیں سیاسی سماجی اور تعلیمی ہر تین سطحوں پر حقیقی جمہوری اصولوں، سیاسی نظریات کی قدر ومنزلت، آئین کی پاسداری، قانون کی حکمرانی اور روزگار کے لئے درکار تیکنیکی تعلیم دینے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ حقیقی سیاسی شعور پیدا ہو اورتمام سیاسی کارکنوں میں اپنے اپنے سیاسی قائدین کے اعمال و افعال کو اخلاقیات آئین و قانون کی کسوٹی پر پرکنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ تب کہیں جاکر اس ملک میں سیاسی نظام اور جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوگی۔ ورنہ افراتفری اور سیاسی نفرت کا یہ عفریت تمام سماجی و مشرقی اقدار کو نگل رہا ہے۔ اور ہمارے نام نہاد سیاسی شعور کا سفر ہمیں ترقی کی بجائے تباہی کی جانب لے کے جارہا ہے۔اللہ تعالی اس معاشرے کو سیاسی نفرت کی اس گہری کھائی میں گرنے سے بچائے۔ آمین