مشاہدے میں آیا ہے کہ پاکستان میں بعض حلقے اظہار رائے کا نہ صرف یکطرفہ اور غلط استعمال کرتے آرہے ہیں بلکہ بعض اوقات یہ رویہ معاشرہ کی تقسیم اور اختلافات کا سبب بھی بنتا ہے ہر سال مختلف طبقے عالمی اور قومی سطح پر بعض دن خصوصی طور پر مناتے ہیں۔ ان دنوں میں عالمی یوم خواتین بھی شامل ہے جس کے دوران خواتین کے حقوق مسائل اور کردار پر بحث کی جاتی ہے۔ مکالمہ کا اہتمام کیا جاتا ہے اور خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کی جاتی ہے تاہم اب کے بار 8 مارچ کے یوم خواتین سے کئی روز بلکہ کئی ہفتے قبل انسانی حقوق اور خواتین حقوق کے بعض علمبرداروں نے غیر ضروری طور پر “میرا جسم میری مرضی ”اور اس نوعیت کے دیگر نعرے لگا کر جہاں وومن کاز کو نقصان پہنچایا اور اس دن کو متنازعہ بنایا وہاں ایک ایسی لاحاصل بحث کا راستہ بھی ہموار کیا جس نے معاشرے کو دو واضح حصوں میں تقسیم کر کے رکھ دیاہے۔ اگرچہ پاکستان میں بعض دیگر حلقوں کی طرح انسانی حقوق اور لبرلزم کے علمبرداروں کا ٹریک ریکارڈ بھی کچھ اچھا نہیں رہا ہے اور ان کی تعداد عملاً نہ ہونے کے برابر ہے تاہم سوشل میڈیا پر یہ لوگ بعض ایشوز کو بنیاد بنا کر منافرت پھیلانے کا سبب بنتے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ حالیہ بحث نے ان مہذب اور اعتدال پسند لوگوں کو کافی مایوس کر دیا جن کا حقیقی خیال یہ ہے کہ پاکستان کے مسائل کچھ اور یا بالکل مختلف ہے حقیقت یہ ہیں کہ یہ عام لوگوں کے ایشوزہے ہی نہیں۔
تاثر دیا جا رہا ہے جیسے پاکستان میں انسانی حقوق کی مجموعی صورت حال بہت ابتر ہے اور خواتین کے حقوق کو آئینی یا سماجی تحفظ حاصل نہیں ہے حالانکہ زمینی حقائق اس تصور کے برعکس ہیں اور ہماری خواتین مردوں کے شانہ بشانہ اپنا فعال کردار ادا کرتی آ رہی ہیں اور ان کے حقوق کو درکار آئینی اور قانونی تحفظ بھی حاصل ہے۔ امریکہ جیسے ملک میں اب تک کوئی خاتون سربراہِ مملکت نہیں بنی تاہم پاکستان کے عوام نے 1988میں بےنظیر بھٹو کو ملک کا وزیراعظم بنایا اور وہ دو بار اس اہم عہدے پر فائز رہی۔ بیگم نسیم ولی خان نے 70 کی دہائی میں قومی اتحاد کی اُس تحریک کو لیڈ کیا جس میں اپنے عَہد کے بڑے بڑے علماء اور سیاسی قائدین بھی شامل تھے اور نسیم بی بی اپنے حلقے سے جنرل سیٹ پر الیکشن لڑ کر ایم پی اے بھی بنتی رہی۔ حالانکہ عام تاثر یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں خواتین کو پابندیوں کا سامنا ہے “میرا جسم میری مرضی” کا نعرہ لگانے والے مخصوص افراد کو عام لوگ موم بتی مافیا کے نام سے یاد کرتے ہیں اور معاشرے میں ان کو کبھی عوامی مقبولیت حاصل نہیں رہی۔ اکثریت اِن کی اُن عناصر پر مشتمل ہے جو کہ بعض غیرملکی اداروں کے ساتھ کام کرتی ہے اور ان کا ہر دور میں ایک مخصوص ایجنڈا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اس کے باوجود مغرب سے متاثر ہیں کہ مغرب میں فیملی سسٹم و اقدار اور روایات کی بحالی پر نہ صرف اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں بلکہ نام نہاد حقوق اور آزادی کے باوجود ترقی یافتہ ممالک میں خواتین اور بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں کمی کے بجائے ہر برس اضافہ ہو رہا ہے۔ سال 2018 کی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں جنسی حملوں میں یا جرائم کے واقعات کی تعداد 1,151 1,0 رہی، 2017 کے دوران برطانیہ میں یہ تعداد ,27910 چین میں ,71233 بھارت میں 2,80203 جبکہ پاکستان میں یہ تعداد 1975 رہی۔ یہ اعدادوشمار ترقی یافتہ ممالک کے بارے میں موجود یکطرفہ تاثر کی نفی کر رہے ہیں۔
ایک نارویجن تحقیقی ادارے نے سال 2016 کے دوران عالمی سطح پر خواتین اور بچوں پر جنسی تشدد کے اسباب کی جو سٹڈی جاری کی اس میں مذاہب سے دوری، نظام تعلیم اور نظام قانون میں موجود کمزوریاں، والدین کے اختلافات اور عدم توجہی، انٹرنیٹ کے غیر ذمہ دارانہ استعمال، جوائنٹ فیملی سسٹم کے زوال اور لامحدود آزادی جیسے عوامل کو جنسی تشدد کی وجوہات قراردیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر لامحدود آزادی اس مسئلہ کے حل میں مدد دے رہی ہوتی تو امریکہ میں ان جرا ئم اور دیگر مسائل کا وجود ہی نہ ہوتا یا جرائم کی تعداد کم ہوتی۔ پاکستان کا معاشرتی یا سماجی ڈھانچہ بنیادی طور پر تین ستونوں یعنی مذہب، آئین اور روایات یا اقتدار پر کھڑا رہا ہے کیونکہ ان تین عوامل سے باہر ہمارا معاشرہ بے چینی کا شکار ہوجاتا ہے۔ تاہم مخصوص ذہنیت کے بعض لوگ ان تینوں حقیقی عوامل سے نہ صرف خود کو مبر سمجھتے ہیں بلکہ وہ عوام کی اکثریت کی وابستگی اور بیانیے کے برعکس دوسروں کو بھی ان عوامل سے متنفر کرنے کی کوشش کرتے آرہے ہیں۔ حالانکہ سماجیات کو جدید علوم میں پوری دنیا کے اندر بنیادی اہمیت حاصل ہے اور جدید ریاستوں میں بھی روایات، نظریات اور اقدار کا خیال رکھا جاتا ہے۔ حالت تو یہ ہے کہ بعض لوگ مغرب کی اندھی تقلید میں مذہب اور صدیوں کی روایات اور ثقافت کا مذاق اڑانے سے بھی گریز نہیں کرتے اور نئی نسل کو حقوق کے نام پر گمراہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ جس قسم کے نعرے سنے گئے یا سنائے گئے وہ نہ صرف ہماری معاشرتی اقدار سے میل نہیں کھاتے بلکہ ایسے نعروں نے اظہار رائے کی آزادی یا حقوق سے متعلق مثبت بحث کو بھی متنازعہ بنا دیا ہے۔ خدانخواستہ اگر اس اقلیتی ٹولے کے خلاف اکثریتی حلقوں کے بعض لوگ مزاحمت پر اتر آئے تو اس سے کشیدگی اور تصادم کا یقینی راستہ ہموار ہو گا اور مثبت مقاصد کی حصول تو دور کی بات بعض لوگوں کو چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔