کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) اور ریاست پاکستان کے درمیان مذاکراتی عمل کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔ٹی ٹی پی نے اس ضمن میں ایک باقاعدہ بیان کے ذریعے سیز فائر کا اعلان کردیا ہے جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجوزہ مذاکرات پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق کیے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف معتبر باخبر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مذاکراتی عمل کے باقاعدہ آغاز اور سیزفائر کے فیصلے میں افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت نے بنیادی کردار ادا کیا ہے اور افغان طالبان ہی فریقین کے درمیان مصالحت کاری کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ اس عمل کا آغاز جون 2019 میں کیا گیا تھا۔
پاکستان کے بعض سیاسی حلقے اس خبر پر اعتراضات اٹھاتے دکھائی دے رہے ہیں اور ان حلقوں نے اس سے قبل ٹی ایل پی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو بھی خطرناک قرار دے کر اس کی مخالفت کی تھی۔ان کا موقف ہے کہ ٹی ٹی پی سمیت جتنی بھی عسکری اور جہادی قوتیں پاکستان میں سرگرم رہی ہیں وہ فورسز اور عوام پر حملوں میں ملوث رہی ہیں اس لئے ان کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے سخت کارروائیاں جاری رہنی چاہئیں۔ تاہم دوسری طرف مذاکرات کے حامی حلقوں کا موقف ہے کہ اگر امریکہ، نیٹو اور سابق افغان حکومت ماضی قریب میں افغان طالبان کے ساتھ ان کے مسلسل حملوں کے باوجود مذاکرات کر سکتی تھی اور اس عمل کو عالم برادری کی حمایت حاصل تھی تو اگر ٹی ٹی پی مزاحمت سےباز آتی ہے اور اسکا خطرہ مستقل طور پر ٹل سکتا ہے تو مذاکرات کرنے میں کیا قباحت ہے؟
دونوں آراء کا اپنا اپنا الگ پس منظر موجود ہے تاہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہر جنگ یا مزاحمت کے دوران ایسا مرحلہ آن پہنچتا ہے جب فریقین بوجوہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ ہی جاتے ہیں اور ایسا کرنے کا واحد مقصد یا ہدف ماضی پر بحث کرنے کی بجائے حال اور مستقبل کو محفوظ اور پرامن بنانا ہوتا ہے ۔اس سے قبل 2002 سے لے کر سال 2013 تک پاکستان کی مختلف حکومتوں اور اس طرح کے مسلح گروپوں کے درمیان تقریباً 21 چھوٹے بڑے معاہدے ہو چکے ہیں۔ سب سے اہم معاہدہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کی حکومت کا کرایا گیا وہ معاہدہ تھا جسے سوات معاہدے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تاہم اکثر معاہدے بوجوہ بعد میں ناکامی سے دوچار ہوئے اور حالیہ کوشش کو بھی بعض حلقے ماضی کے ایسے ہی تجربات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ اس ضمن میں تمام تر خدشات اپنی جگہ مگر اس سوال کا جواب ڈھونڈنا بھی کافی مشکل ہے کہ اگر ٹی ٹی پی بوجوہ مذاکرات، سیز فائر یا کسی اور آپشن پر آمادہ ہو گئی ہے تو حکومت اس صورتحال سے فائدہ کیوں نہ اٹھائے۔ ماضی کے معاہدوں اور حالیہ مجوزہ کوشش کے درمیان ایک بڑا فرق یہ ہے کہ اب کی بار افغان حکومت اور امارت اسلامی دنیا کے بعض اہم ترین رہنما ،سہولت کاروں کے علاوہ گارنٹرز کے طور پر کردار ادا کر رہے ہیں اور ٹی ٹی پی کی اعلٰی قیادت افغان طالبان کے امیر کو اپنا رہبر سمجھتی ہے اگر افغان قیادت اس ضمن میں بدلتے علاقائی تناظر میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہی ہے اور ٹی ٹی پی تشدد، حملوں اور دوسری سرگرمیوں سے باز آتی ہے تو اس میں برائی کیا ہے؟
ایک اور نکتہ افغانستان اور پاکستان میں داعش خراسان کی موجودگی اور سرگرمیوں سے متعلق ہے۔ 15 اگست کے بعد خراسان نے افغانستان میں 18 جبکہ پاکستان میں 7 کارروائیاں کی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے بعض سخت گیر جنگجوؤ اور داعش کے درمیان روابط ہیں اور اس کے نتیجے میں ٹی ٹی پی نے گذشتہ چند ہفتوں ،مہینوں کے دوران قبائلی اضلاع میں درجن بھر حملے کیے ہیں جن میں زیادہ تر فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔ اگر فریقین کسی معاہدے پر پہنچتے ہیں تو اس سے خطے میں داعش کا بڑھتا ہوا خطرہ کم ہو جائے گا اور پراکسیز کا راستہ روکنا بھی آسان ہوگا۔
جہاں تک بعض سیاسی حلقوں کی مخالفت کا تعلق ہے ان کو اعتماد میں لینا چاہیے کیونکہ ان کے تحفظات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ تاہم اس حقیقت کا ان کو بھی ادراک ہونا چاہئے کہ پاکستان کی فورسز بھی ٹی ٹی پی کے ہزاروں جنگجوؤں کا خاتمہ کر چکی ہیں اور فورسز کے بھی دس ہزار سے زائد افسران اور اہلکار اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ اے پی ایس کے سانحہ سمیت اکثر حملوں کے ذمہ داران کو ان کے انجام تک پہنچایا جا چکا ہے جبکہ پانچ ہزار کے لگ بھگ جنگجوگرفتار کیے جا چکے ہیں۔اسی کا نتیجہ ہے کہ ٹی ٹی پی کی اب پہلی والی قوت، صلاحیت اور موجودگی نہیں رہی اور اس کا کریڈٹ فورسز کو دینا چاہیے۔
اس قسم کی صورتحال میں اعلی عسکری قیادت سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لیتی آئیں ہیں اور گزشتہ روز بھی افغانستان اور علاقائی سیکیورٹی سمیت دیگر متعلقہ معاملات پر اعلٰی عسکری قیادت نے قومی سلامتی کمیٹی کے پلیٹ فارم پر سیاسی پارلیمانی قیادت کو اعتماد میں لے کر ان سے مشاورت کی ہے۔ ایسے میں محض حکومت کی مخالفت کی آڑ میں ریاست کے وسیع تر قومی مفادات اور بعض فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ حالات کا ادراک کرتے ہوئے حقیقت پسندانہ اور مثبت طرز عمل اختیار کیا جائے اور جتنے بھی مزاحمتی اور مسلح گروپ تشدد ترک کر کے آئین کے اندر اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے پر آمادہ ہوتے ہیں ان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔