پشتونوں کی اردو زبان سے الفت

تحریر :ڈاکٹر عبدالودود خان
بنوں ، خیبر پختونخواہ میں اردو کے جان کیٹس ، مقبول عامر کا شہر ہے ۔ یہاں تینتیس سال کی عمر میں پشتو بولنے والے مقبول عامر نے ” دیے کی آنکھ ” سے اپنے ارد گرد دیکھا ، محسوس کیا اور شعر کہے۔ یہیں بنوں سے آگے ڈی آئی خان کے غلام احمد قاصر نے اردو شاعری کی اور جم کر کی حالانکہ ان کی ماں اردو نہیں بولتی تھیں۔ کرک میں پشتو شعر کہنے والے شمس الزمان شمس مرحوم نے اردو کا حق ادا کیا اور سینکڑوں شعر اردو میں کہے اور انہی کے بھانجے عدنان سالار نے روایت آگے بڑھائی اور اردو میں آج بھی شعر کہتے ہیں۔ کوہاٹ کے احمد فراز سے لے کر پشاور کے رضا ہمدانی اور فارغ بخاری تک، سب نے اردو کا دامن مزید وسیع کیا۔
لیکن ہمیں ایک گلہ ضرور ہے!
ہمارے اردو تلفظ اور لہجے کا مذاق اڑانے والے کراچی لاہور ، بہاولپور و فیصل آباد کے ادیبوں شاعروں کو ہمارے المیوں سے کوئی غرض نہیں ہے۔ انہیں جینز کے ممنوع ہوجانے کا دکھ ہے۔ انہیں یہ پریشانی ہے کہ جغرافیہ فلسفہ سائنس کیمسٹری سائیکالوجی جاننے والوں کو ” اس ” کے گھر کا پتا بھی معلوم ہے یا سب علم بیکار جارہا ہے۔ ان کے سر درد نہیں جاتے تو انہیں شعر میں ” کسی ” کو مخاطب کرنا پڑتا ہے کہ “انگلیاں پھیر میرے بالوں میں” لیکن انہیں پشتون شاعر کا وزیرستان، سوات، پشاور اور کابل محسوس نہیں ہوتا۔ نہ ہی ان تک پشتونوں کے بازاروں کے سنسان ہو جانے کے دکھ کی شدت پہنچتی ہے۔ سستے مارکسی مضامین لے کر یکم مئی کو نظم کہنے سے اور محرم میں صرف حق حسین اور مرگ بر یزید کہنا کافی نہیں ہے۔ قلم کا ، حرف کا حق تب تک ادا نہیں ہوسکتا جب تک گھروں سے اٹھائے گئے بے گناہوں کی ماؤں بیویوں اور بچوں کا نوحہ نہیں لکھا جاتا۔ دریا کنارے پیاس سے مار دئے جانے والوں کا گیت لکھے بغیر حرف کی حرمت قائم نہیں کی جا سکتی۔
ہم پشتون، اردو کے معاملے میں غیر اہل زبان لوگ ہیں۔ ہمیں باور کرایا جاتا ہے کہ ہماری اردو اتنی شاندار نہیں ہوتی جتنی اہل زبان لوگوں کی ہوتی ہے۔ ہمیں مذکر مونث کا فرق اکثر و بیشتر ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ کہا “ہیں” لکھنا ہے اور کہاں “ہے” یہ ہمیں سوچنا پڑتا ہے۔ ہمیں کبھی کبھار الفاظ کے تلفظ میں بھی دشواریاں پیش آ جاتی ہیں لیکن ہم اردو میں لکھت پڑھت ترک نہیں کرتے۔ طعنے سنتے ہیں ، ٹی وی ڈراموں میں ، سماجی میڈیا میں مذاق کا نشانہ بنتے ہیں لیکن ہم سیکھنے سے باز نہیں آتے۔ اپنی خوشیوں کی مہک ہو یا اپنے دکھوں کی تپش ، ہم اپنے تجربات اور مشاہدات اردو کے دامن کے حوالے کر آتے ہیں۔ گاؤں کی شاموں میں چھوٹی چھوٹی دکانوں کے تھڑوں پر بیٹھ کر پشتو میں لگائی گئی گپیں ترجمہ کر کے اردو کی چوکھٹ پر رکھ آتے ہیں۔ پشتو میں کئے گئے سفر اور دیکھے گئے خواب اردو کو مفت میں دے دیتے ہیں۔ گاؤں کے صحن میں گرمیوں کی راتوں میں چاند اترتا ہے تب اس سے پشتو میں بات کرتے ہیں لیکن عقیدہ ہے کہ زبان جو بھی ہو مقدس ہوتی ہے ، اس لئے اردو کو بھی شامل حال کر لیتے ہیں۔
کوئی پڑاؤ نہیں وقت کے تسلسل میں
یہ ماہ و سال کی تقسیم تو خیالی ہے

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket