اگست 2021 کے دوسرے ہفتے کے دوران افغان طالبان نے غیر متوقع طور پر کسی حکومتی مزاحمت کے بغیر کابل سمیت 95 فیصد افغانستان پر بیس سالہ جنگ کے بعد پھر سے قبضہ کرلیا تو اس جنگ زدہ ملک کے مستقبل اور خطے کی صورتحال کے علاوہ سیاسی اور صحافتی حلقوں میں اس ایشو پر بھی ایک نئی بحث چل نکلی کہ اس تبدیلی کے پاکستان پر کس نوعیت کے اثرات مرتب ہونگے۔ یہ سوال بھی اٹھایا جانے لگا کہ پاک افغان بارڈر پر پاکستان کو کیسے چلنجز پیش آ سکتے ہیں اور یہ کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں یا پٹی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ایک بار پھر پاک افغان سرحد سب کی توجہ کا مرکز ہے۔
یہ سوالات اس لیے اٹھائے جانے لگے کہ دسمبر 2001 کے بعد جب افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ کیا گیا اور نیٹو فورسز نے کنٹرول سنبھالا تو ہزاروں جنگجوؤں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں کا رُخ کیا اور اس کے نتیجے میں یہاں بھی امن و امان کی صورتحال بری طرح بگڑ گئی۔چونکہ نائن الیون سے قبل پاکستان اور افغانستان کی سرحدی پٹی پر بوجوہ توجہ نہیں دی گئی تھی اور جنگ صورتحال نہیں رہی تھی اس لئے اس پیچیدہ پہاڑی خطے کو بارڈر سیکیورٹی کے تقاضوں کے مطابق محفوظ نہیں کیا گیا تھا۔ اس لیے پاکستان میں حالات بدترہوتے گئے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں ایک طرف طالبان، القاعدہ اور دیگر کو یہاں پناہ لینی پڑی وہاں ان عناصر نے پاکستان کے خلاف بھی کارروائیاں شروع کیں اور ان کے خاتمے کے لیے پاکستان کی افواج کو 4بڑے ملٹری آپریشنز سمیت تقریبا ً24 آپریشن کرنا پڑے۔سال 2016 کے دوران جب آرمی پبلک اسکول پر حملہ کرا کے 100 سے زائد معصوم بچوں سمیت اسٹاف کے درجنوں افراد کو شہید کیا گیا اور اس حملے کی پلاننگ کے ڈانڈے افغانستان میں موجود دہشت گرد نیٹ ورکس کے ساتھ ملائے گئے تو جہاں ایک طرف نیشنل ایکشن پلان کی صورت میں ایک مربوط قومی پالیسی منظور کی گئی وہاں اس بات کا سنجیدہ جائزہ لیا گیا کہ افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی اور حملوں کا راستہ کیسے روکا جائے اور کراس بارڈر ٹیررازم کے سلسلے کی روک تھام کو کس طرح ممکن بنایا جائے کیونکہ اب کی بار نہ صرف یہ کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو افغان سرپرستی میں ہزاروں کی تعداد میں افغان سرزمین پر جمع ہوگئے تھے بلکہ کامیاب فوجی کارروائیوں کے باعث ٹھکانے ختم ہونے کی صورت میں اب ٹی ٹی پی کے علاوہ گاہےبگاہے افغان فورسز نے بھی پاکستانی علاقوں پر حملے کرنا شروع کر دیے تھے۔اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے دوسرے اقدامات کے علاوہ عسکری سطح پر یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے پاک افغان سرحد پر باڑ لگا کر چیک پوسٹیں قائم کی جائیں اور ساتھ میں مانیٹرنگ کے ایک جدید نظام کو بھی متعارف کرایا جائے۔ اس منصوبے کے تین بڑے مقاصد تھے پہلا یہ کہ کراس بارڈر پر ٹیرارزم کا خاتمہ کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ اسمگلنگ اور غیر قانونی تجارت ، نقل و حرکت کا راستہ روکا جائے اور تیسرا یہ کہ پاکستان اور افغانستان کے ایک تاریخی تنازعہ کےپس منظر میں ڈیورنڈ لائن کی حدود کا تعین کیا جاسکے۔اس منصوبے کا باقاعدہ آغاز مارچ 2017 میں کیا گیا جو کہ اس خطے میں طویل ترین حدبندی کا سب سے بڑا اور پہلا تجربہ تھا۔ کہا گیا کہ اس پر پانچ ارب ڈالرز کی لاگت آئے گی تاہم بعد میں منصوبے میں بعض بنیادی تبدیلیوں کے باعث لاگت میں مزید اضافے کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں۔ ماہرین کے مطابق اس منصوبے کے لیے پاکستان نے امریکہ اور افغان حکومت کو بھی اعتماد میں لیا تھا اگرچہ بعد میں بعض افغان عہدیداران اور وزراء عوامی جذبات ابھارنے کے لئے الزام لگاتے رہے کہ پاکستان نے بارڈر فنسنگ کا فیصلہ اپنے طور پر کیا تاکہ ان کے بقول متنازعہ ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کروایا جائے۔
اگست 2019 کے پہلے ہفتے کے دوران پاک فوج کے ایک متعلقہ عہدیدار نے ایک بریفنگ کے دوران بتایا کہ اس منصوبے پر 90 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فنسنگ سے پاکستان کے قبائلی علاقے محفوظ ہوچکے ہیں اور غیر قانونی تجارت ، سمگلنگ اور حملہ آوروں کی آمد و رفت کا سلسلہ ختم یا بڑی حد تک کم ہو گیا ہے۔ عسکری ذرائع کے مطابق باڑ کی اونچائی 13 فٹ یعنی تین میٹر ہے جبکہ اس کی لمبائی 2645 کلومیٹر ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس منصوبے میں سولہ سے بیس کے درمیان رسمی کراسنگ پوائنٹس قائم کی گئی ہیں جن کا مقصد قانونی طور پر آمدورفت اور تجارت کو آسان اور ممکن بنانا ہے جبکہ ایک ہزار کے لگ بھگ چھوٹی بڑی چوکیاں بھی بنائی گئی ہیں تاکہ فوجی مانیٹرنگ کی سسٹم کو فعال بنانے کے علاوہ فورسز کی بوقت ضرورت نقل و حرکت کو بھی مستقل بنیادوں پر یقینی بنایا جا سکے۔یہ منصوبہ جن علاقوں کا احاطہ کر رہا ہے ان میں خیبرپختونخوا خصوصا سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے سرحدی علاقے شامل ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جن کی سرحدیں افغانستان کے تقریباً 11 صوبوں کے ساتھ لگی ہوئی ہیں اور یہ وہ صوبے ہیں جو کہ اکثر شورشوں کی زد میں رہتے ہیں۔یہی وہ منصوبہ ہے جس کے باعث ریاستی اداروں کے علاوہ دفاعی ماہرین کو بھی یقین ہے کہ اگر افغانستان کے حالات خدانخواستہ ماضی کی طرح خراب ہوتے ہیں تو پاکستان ماضی کی طرح متاثر نہیں ہوگا۔