“دہشت گرد افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں۔” نگران وزیراعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ نے نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوٸے کہا, ”پاکستان اور افغانستان کے مابین ہمسائیگی اور بھائی چارے کا ایک گہرا رشتہ ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں میں افغانستان کے لیے جس ایثار اور اخوت کا مظاہرہ ریاست پاکستان اور پاکستان کے عوام نے کیا ہے وہ اس رشتے کا عملی نمونہ ہے جب بھی افغانستان پر کوئی بھی افتاد پڑی پاکستان کی حکومت اور عوام نے اپنا درد بانٹا۔
پاکستان نے گزشتہ 44 برس میں 40 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا اور محدود وسائل کے باوجود نہایت خندہ پیشانی سے اپنے افغان بھائیوں کا ساتھ نبھایا ۔
اس ضمن میں عالمی اداروں کی محدود اور قلیل امداد پاکستان کی مہاجرین کو چار دہائیوں پر محیط معاونت کے مقابلے کچھ بھی نہیں۔
اگست 2021 میں افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد ہمیں یہ قوی امید تھی کہ افغانستان میں دیرپا امن قائم ہوگا باہمی تعاون سے دونوں ریاستیں ترقی اور خوشحالی کی نئی راہیں استوار کریں گی
افغانستان میں دیرپا امن قائم ہوگا۔ پاکستان مخالف گروہوں خصوصا تحریک طالبان پاکستان کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے گی اور ان کو افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 60 فیصد اور خودکش حملوں میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
پچھلے دو سالوں میں 2267 معصوم پاکستانی شہریوں کی جانیں اس اندوہناک خون ریزی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔
جس کے ذمہ دار تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد ہیں۔ جو افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر بزدلانہ حملے کر رہے ہیں۔
ان خودکش حملوں میں ملوث افراد میں 15 افغان شہری بھی شامل تھے اس کے
علاوہ اب تک 64 افغان شہری انسداد دہشت گردی کی مہم میں پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے۔
یہ تمام حقائق افغان حکام کے علم میں ہیں فروری 2023 سے تواتر کے ساتھ ہر 15 دن بعد پاکستان کی جانب سے افغان عبوری حکومت کو احتجاجاً تفصیلات مہیا کی جا رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کی جولائی 2023 میں جاری ہونے والی رپورٹ میں بھی افغانستان میں موجود تحریک طالبان پاکستان کے مراکز اور اس کی پاکستان مخالف سرگرمیوں میں اضافے کا واضح ذکر کیا گیا ہے۔ اس سب کے باوجود پاکستان نے دنیا بھر میں افغانستان اور افغان عوام کی بھرپور حمایت اور وکالت جاری رکھی اور ہم افغانستان کی صورتحال اور افغان عوام کو درپیش مشکلات کی طرف عالمی برادری کی توجہ مبذول کرواتے رہے
اس کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان نے افغانستان کو تجارت اور درآمد کے حوالے سے بھی انتہائی غیر معمولی پابندیاں لگاٸیں مگر بدقسمتی سے پاکستان کے صبر فراخ دلی اور مصالحت پسندی کی قدر نہ کی گئی۔
فروری 2023 میں ایک دہشتگرد حملے میں 100 سے زائد معصوم افراد کی شہادت کے بعد وزیر دفاع کی قیادت میں ایک اعلی سطح وفد نے افغانستان کا دورہ کیا جس میں ڈی جی ISI بھی شامل تھے اس وقت بھی افغان حکومت کو پاکستان کے شدید تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے پاکستان یا تحریک طالبان پاکستان میں سے ایک کو چننے کا دو ٹوک پیغام دیا اس کے بعد بھی متواتر سیاسی سفارتی فوجی رسمی اور غیر رسمی ذرائع سے افغان حکومت کو افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کا واضح پیغام دیا جاتا رہا۔
افغانستان سے ہونے والی دہشتگردی میں افغانستان میں موجود پاکستان کو مطلوب سرکردہ دہشت گردوں کی فہرست بھی افغانوں عبوری حکومت کے حوالے کی گئی افغان عبوری حکومت کی بارہا یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان مخالف دہشت گرد گروہوں کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کیے گئے بلکہ چند مواقع پر تو دہشتگروں کی سہولت کاری کے واضح ثبوت بھی سامنے آئے
اس پس منظر میں کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کی بجائے افغان حکومت نے مشورہ دیا کہ پاکستان کو اپنی اندرونی حالات پر توجہ دینی چاہیے۔
افغان حکومت کے اس رویے اور عدم تعاون کے بعد اب پاکستان نے اپنے داخلی معاملات کو اپنی مدد آپ کے تحت درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
اس حوالے سے پاکستان کے حالیہ اقدامات نہ تو غیر متوقع ہیں اور نہ حیران کن ہے۔